کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے حکومت سے زرعی پیداوار بڑھانے اور لاگت کم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے۔
اس کے علاوہ ایف پی سی سی آئی کی جانب سے حکومت کو زرعی شعبے کو اپنے معاشی پلان میں ترجیح دینے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے ذریعے خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
چئیرمین ایف پی سی سی آئی میاں انجم نثار نے ایک بیان میں کہا کہ جاری مالی سال کے جولائی تا فروری کے دوران پیداوار میں کمی کی وجہ سے گندم کا درآمدی بل 909 ملین ڈالر، چینی 126 ملین ڈالر اور کپاس 913 ملین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ پہلے آٹھ ماہ میں ان اجناس کا مجموعی طور درآمدی بل دو ارب ڈالر کے قریب ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی ناقص منصوبہ بندی، زرعی تحقیق کی کمی، ماحولیاتی تبدیلیوں، ناقص طرز حکمرانی اور سرمایہ کاری کی کمیابی کے نتیجے میں پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کا بحران پیدا ہوا۔
اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری 2021ء تک پنجاب میں کپاس کی گزشتہ سال کی 50 لاکھ گانٹھوں کے مقابلے میں رواں سال 35 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار ہوئی، سندھ میں بھی پیداوار کم رہی اور محض 21 لاکھ گانٹھ کپاس پیدا ہوئی جو گزشتہ سال کی پیداوار کے مقابلے میں 38.52 فیصد کم ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی کے مطابق ملک میں دو سال پہلے 9.2 ملین ہیکٹرز رقبے پر گندم کاشت ہوتی تھی جس سے 26.7 ملین ٹن پیداوار حاصل ہوتی تھی لیکن اب یہ پیداوار کم ہو کر 24 ملین ٹن جبکہ کاشت کاری کا رقبہ بھی 8.8 ملین ہیکٹرز تک سکڑ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کپاس کی پیدوار خطرناک حد تک کم، زراعت، ٹیکسٹائل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
’کاشتکاری کے بوسیدہ نظام سے گندم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی‘
سی پیک کے تحت زرعی شعبے میں جدت، تحقیق اور ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے
اسی طرح پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا زرعی رقبہ بھی 2.5 ملین ہیکٹرز تک سکڑ گیا ہے جبکہ فی ہیکٹر 618 کلوگرام کپاس کی پیداوار ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کپاس کی 29.4 ملین گانٹھوں اور چین میں 27.5 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال گنے کی پیداوار 1.2 ملین ہیکٹرز رقبے سے 75.5 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی تھی۔ رواں برس اس کی کاشتکاری کا رقبہ کم ہوا اور پیداوار کم ہو کر 66.8 ملین ٹن پر آ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 45 سالوں میں زیر کاشت زمین میں 11.5 فیصد اضافہ ہوا جس کی بدولت گندم کی پیداوار میں 187 فیصد، کپاس کی پیداوار میں 171 فیصد اور گنے کی پیداوار میں 162 فیصد اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود پاکستان کو آبادی بڑھنے کی وجہ سے ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشکلات درپیش ہیں، آبادی 1.9 فیصد اضافے کے ساتھ 22 کروڑ سے زائد ہو گئی ہے۔
انجم نثار کا کہنا تھا کہ اس صورت حال کو ذہن نشین کرتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ مشینری، کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر آلات کی خریداری میں براہِ راست کسانوں کی معاونت کرے جبکہ فارم ٹو مارکیٹ رسائی آسان بنانے کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر کو یقینی بنائے۔ حکومت کو ملک میں خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دیرپا زرعی پالیسی اپنانا ہو گی۔
صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک (30 سالوں میں کم ترین) کمی کی وجہ سے رواں برس 4 ارب ڈالر کی 70 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی۔ 18ویں ترمیم کے بعد زراعت صوبائی معاملہ ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں پیداوار بڑھانے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ دونوں حکومتوں نے ابھی تک کسی قسم کے مثبت اقدامات نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھاکہ زرعی شعبے میں لاپرواہی ملک کو خوراک کے سنگین بحران سے دوچار کر دے گی جبکہ اشیائے ضروریہ کا بحران مہنگائی کو بڑھائے گا، زرعی شعبے کے لیے بیج ایک بنیادی اِن پٹ ہے اور زرعی پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بہتر منافع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا اب زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے سرٹیفائیڈ بیج کے استعمال پر توجہ دے رہی ہے۔
انجم نثار نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور فارم میکانائزیشن ررعی شعبے کی پیداوار بڑھا سکتی ہے۔ جب سے تمام اقتصادی اعشاریے مثبت سمت میں ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس کے ثمرات تمام شہریوں تک پہنچانے کے لیے اپنی مکمل توجہ صَرف کرے۔