لندن: برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں جڑواں بچوں کی تعداد میں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں اضافہ ہو نے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
سائنسی جریدے ہیومن ری پروڈکشن میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اب ہر سال 16 لاکھ سے زیادہ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جڑواں بچے پیدا ہونے کی شرح جو 1980ء میں ہر ایک ہزار میں سے 9 تھی وہ اب ہر ایک ہزار میں 12 تک پہنچ چکی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹیان مونڈین کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے وسط کے بعد سے جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ خواتین کی بڑی عمر میں بچوں کو جنم دینا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق دنیا کے غریب علاقوں میں جڑواں بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں تھی۔ اس تحقیق کے لئے محققین نے 1980ء سے 2015ء تک کے دوران 165 ممالک سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔
پروفیسر کرسٹیان مونڈین کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اموات کی شرح بھی زیادہ ہے جبکہ مقالے کے شریک مصنف جیرون سمتز کا کہنا ہے کہ انہیں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے مطابق خاص طور پر افریقا میں بہت سے جڑواں بچے اپنی زندگی کے پہلے سال میں اپنے شریک جڑواں کو کھو دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف اور صرف الگ پیدا ہونے والے برادرانہ جڑواں بچوں کی پیدائش کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ منوزیگوٹس کے نام سے جانے والے جڑواں بچوں کی تعداد ایک جیسی رہی۔