مہنگائی میں ایک بار پھر اضافہ، یہ طوفان کہاں جا کے تھمے گا؟

گزشتہ برس 2020ء کی ابتداء میں کورونا وبا کے پھوٹنے سے پہلے پاکستانیوں کی اولین پریشانیوں میں سے ایک بے قابو مہنگائی تھی جو سال کے پہلے مہینے میں 14.6 فیصد تھی مگر بقیہ مہنیوں میں اس میں متواتر کمی آتی رہی تاہم رواں سال کے آغاز سے ہی اس میں ایک بار پھر اضافہ شروع ہو گیا ہے

2556

ذرا سال 2020ء کے ابتدائی دنوں  کو دوبارہ ذہن مں لائیں، یہ کورونا وبا شروع ہونے اور معیشت کے لڑکھڑانے سے پہلے کے دن تھے جب پاکستانیوں کی سب سے بڑی پریشانی روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی تھی۔ جنوری 2020ء میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد تھی جو گزشتہ 9 سالوں کی بلند ترین سطح تھی۔

تاہم اس کے بعد سے صورت حال بہتر ہونا شروع ہو گئی، جیسا کہ ہمارے گراف میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2020ء میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 12.4 فیصد اور مارچ 2020ء میں 10.2 فیصد پر آ گئی۔ اس کے بعد اپریل 2020ء میں افراط زر کی شرح شرح یک عددی ہو کر آئندہ آٹھ ماہ تک 8.5 فیصد رہی اور کبھی کبھار 9 فیصد پر پہنچی۔

مگر رواں سال جنوری 2021ء میں مہنگائی کی شرح تیزی سے کم ہوکر 5.7 فیصد ہو گئی۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا؟ کیا حکومت نے مہنگائی پر واقعی قابو پا لیا ہے؟

معاشی تبصرہ نگاروں کی رائے تو کچھ ایسی ہی ہے، یہاں تک کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بھی کہا گیا کہ مہنگائی میں کمی کا رجحان جاری رہے  گا اور شرح سود میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

مگر ایسا ہوا نہیں۔ ادارہ برائے شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2021ء میں مہنگائی کی شرح چار ماہ کی بلند ترین سطح یعنی 8.7  فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔

یہ مہنگائی کی وہ صورت حال ہے کہ جس کے بارے میں اے کے ڈی سیکورٹیز کے انویسٹمنٹ اینالسٹ حمزہ کمال 25 فروری 2021ء کو کلائنس کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں پیش گوئی کر چکے تھے۔ اس رپورٹ میں حمزہ کمال نے بتایا تھا کہ بجلی کی قیمتوں پر نظرثانی اور اشیائے خورونوش کے بڑھتے نرخ وہ نمایاں عناصر ہیں کہ جن کی بناء پر فروری 2021ء میں مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد رہے گی۔

 کمال کے الفاظ میں: جنوری 2021ء میں 5.7 فیصد پر ریکارڈ کیے جانے کے بعد، نمایاں طور پر بلند بیس افیکٹ اور خوراک کے شعبے میں خاموش افراط زر کی وجہ سے مہنگائی کی شرح کی آٹھ فیصد سے زائد پر واپسی متوقع ہے اور سالانہ بنیادوں پر فروی 2021ء میں یہ شرح  8.7 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

حمزہ کمال کے مطابق دو ماہ متواتر کمی کے کے بعد خوراک کے شعبے میں افراط زر مثبت ہونے اور اس میں ماہانہ بنیاد پر 0.96 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے مرغی کے گوشت کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے جس میں گزشتہ مہینے کے مقابلے میں 30.8 فیصد اضافہ ہ وچکا ہے حالانکہ جنوری 2021ء میں اس کے نرخوں میں ماہانہ بنیاد پر 18.3 فیصد کمی ہوئی تھی۔

اس دوران تیل کی قیمتوں میں بھی 5.4 فیصد اضافہ ہوا اور حکومت نے بجلی کی قیمت پر بھی نظرثانی کرتے ہوئے اسے تمام کیٹگریز بشمول لائف لائن صارفین کے لیے 1.95 روپے مہنگا کر دیا۔ دسمبر 2020ء میں بھی اس میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 1.54 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہوا جس نے ماہانہ ہاؤسنگ انڈیکس میں 4.44 فیصد اضافہ کر دیا۔

حمزہ کمال کی رپورٹ کے مطابق سالانہ بنیادوں پر رواں برس مارچ میں شہروں میں افراط زر کی شرح 8.24 فیصد رہنے کی توقع ہے جو جنوری 2021ء میں 5.03 فیصد تھی۔ سالانہ بنیادوں پر فروری  2021ء میں دیہی علاقوں میں افراط زر کی شرح 9.37 فیصد ریکارڈ کی گئی جو جنوری 2021ء میں 6.60 فیصد تھی۔ سال 2021ء کے پہلے آٹھ ماہ میں مہنگائی کی شرح 8.25 فیصد رہنے کی توقع ہے جو پچھلے برس کے اسی عرصے میں 11.7 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

تو مستقبل کے لیے حمزہ کمال کی پیشگوئی کیا ہے؟  ان کے مطابق وسط مدتی مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے ، اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ ہو گا ہی کیونکہ رواں سال کے آغاز پر  ہی کموڈٹی پرائس انڈکس ٹی آر جی 36.7 فیصد بڑھ چکا تھا۔ ممکنہ طور پر وفاقی حکومت ٹیرف میں التواء کا شکار اور مستقبل کی ایڈجسٹمنٹ کی منظوری بھی دے دے گی۔ مزید یہ کہ ماہِ رمضان بھی آنے والا ہے جس میں مہنگائی مزید بڑھے گی لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سال 2021ء کے لیے مہنگائی کی ریڈنگ 10.2 فیصد رہے گی۔

اے کے ڈی سیکیورٹیز کے انویسٹمنٹ اینالسٹ حمزہ کمال کا کلائنٹس کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ تیل کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ مہنگائی کے حوالے سے ہمارے اندازے میں 19 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کر دیتا ہے جبکہ یوٹیلٹی ٹیرف میں ہونے والے ہر 10 فیصد اضافے کی وجہ سے مہنگائی کے ماہانہ اندازے میں 47 بیسز پوائنٹس کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ”وسط مدتی عرصے میںآئی ایم ایف کی جانب سے رواں سال کے 4.7 کھرب روپے کے مقابلے میں سال 2022ء میں ٹیکس ریونیو 5.9 کھرب روپے تک بڑھانے کی ہدایت کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔”

اُدھر حکومت 360 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی وجہ سے صارفین کے لیے اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

بیرونی اکاؤنٹ کی صورت حال کے پیش نظر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے اگلے دو مانیٹری پالیسی اجلاسوں تک شرح سود میں تبدیلی نہ کیے جانے کا امکان ہے۔

حمزہ کمال سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کو مارکیٹ میں مثبت انداز میں لیا گیا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کی بدولت ممکنہ طور پر درآمدات میں اضافے اور اشیاء کی قیمتوں میں بڑھتے اضافے کے باوجود بیرونی اکاؤنٹ کو تسلی بخش صورت حال میں رکھنے کے لیے دباؤ برقرار رہے گا۔ یہ چیز سٹیٹ بینک آف پاکستان کو شرح سود برقرار رکھنے پر مجبور کرے گی تاہم سال کے دوسرے حصے میں اس میں کچھ تبدیلی ہو گی۔

حمزہ کمال کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ ”ایف اے ٹی ایف میں کچھ ممکنہ مثبت پیشرفت (جس کا اعتراف آئی ایم ایف کی جانب سے بھی 22-24 فروری کے اجلاس میں  کیا گیا ہے) بھی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو مزید نمایاں کرے گی۔ ” ان کا اشارہ بالخصوص سیمنٹ، سٹیل، بجلی اور آئل مارکیٹنگ انڈسٹری خاص کر پاکستان سٹیٹ آئل کی طرف تھا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here