پاور ڈویژن نے سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کابینہ کمیٹی برائے توانائی میں پیش کر دیا

پلان میں مالی سال2020-21ء سے 2022-23ء تک کے تین سالہ دورانیے کا احاطہ کیا گیا ہے اور گردشی قرضے کا مسئلے حل کرنے کے طریقہ کار اور اقدامات کی وضاحت کی گئی ہے

639

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے سامنے پیش کر دیا۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرصدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاور ڈویژن کی جانب سے سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) 2021ء پیش کیا گیا۔

اس پلان میں گردشی قرضے کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مالی سال 2020-21ء سے مالی سال 2022-23ء تک کے تین سالہ دورانیے کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقہ کار اور اقدامات کی وضاحت کرنے کے علاوہ ایک ایکشن پلان کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

گردشی قرضہ کیا ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟

آئندہ چار ماہ میں گردشی قرضہ دو کھرب 80 ارب روپے تک پہنچ جائے گا

حکومت کا آئی ایم ایف کیساتھ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ منجمد کرنے پر اتفاق

پلان میں کہا گیا ہے کہ مانیٹرنگ میٹرکس سسٹم کے ساتھ گردشی قرضے کے بہائو بہاؤ کو کنٹرول کیا جائے، کمیٹی نے سرکلر ڈیبٹ کی صورت حال کی باقاعدہ نگرانی اور اس کے لیے منصوبہ وضع کرنے کے لئے پاور ڈویژن کی کوششوں کو سراہا۔

اجلاس میں پاور ڈویژن نے 9 جنوری 2021ء کو ملک بھر میں بجلی کی بندش کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کی، تکنیکی وجوہات کی بناء پر کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی گئی جس کی وجہ سے ملک بھر میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔

پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ تین الگ الگ انکوائری رپورٹس نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ گڈو پاور کمپلیکس میں پیش آنے والا واقعہ ایک محرک نقطہ تھا جس کی وجہ سے بجلی کا پورا نظام ٹوٹ گیا۔

کمیٹی ارکان نے نقطہ اٹھایا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے سسٹم میں مناسب چیک اینڈ بیلنس کیوں دستیاب نہیں تھا؟ کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ چیک اینڈ بیلنس سسٹم کی عدم دستیابی کا پتہ لگانے سے ہو سکتا ہے کہ بجلی کے خرابی کے بعد یا کسی اور طرح سے 2018ء میں نیپرا کی جانب سے دی گئی موسمی سفارشات کا پتہ لگایا جا سکتا ہو۔

کمیٹی برائے توانائی نے پاور ڈویژن سے استفسار کیا کہ یہ واضح کرنا چاہئے کہ نیپرا کی 2018ء کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانا کس کی ذمہ داری تھی۔

اجلاس میں وزیر برائے توانائی عمر ایوب خان، وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، پاور ریونیو سے متعلق وزیراعظم کے معاون خصوصی اور مختلف وزارتوں اور  ڈویژنوں کے عہدیدار شریک تھے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here