پاکستان میں لگژری گاڑیوں کے درآمدکنندگان فراڈ کی زد پر کیوں ہیں؟

80 کروڑ روپے کے ’پورشے فراڈ‘ کی کہانی، جس میں ڈیلر کاروں کی بکنگ کے نام پر رقم  لے کر رفوچکر ہو گیا اور گاہک اب اس کی راہ تک رہے ہیں

1792

یہ کہانی معاشرے کے امیر طبقے اور اُن کے مسائل بارے میں ہے، یہ لوگ عام طور پر مالی معاملات میں دھوکا نہیں کھاتے اور اگر کبھی دھوکا کھائیں بھی تو کسی دوسرے بہت امیر آدمی کے ہاتھوں ہی کھاتے ہیں۔

یہ مضمون لگژری گاڑیوں کے حوالے سے ہے اور اگر واضح بات کی جائے تو پورشے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی جانب سے ملک کے امیر ترین اور بااثر افراد سے 80 کروڑ روپے کے فراڈ سے متعلق ہے۔

یہ فراڈ کیسے ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے ہمیں سماج کے سب سے اعلیٰ طبقے کے نظام زندگی کو سمجھنا چاہیے، اس دنیا کے باسیوں کا اپنے سے  کم حیثیت کے افراد سے واسطہ کم ہی پڑتا ہے، ان لوگوں کا اُٹھنا بیٹھنا اور میل جول جانی پہچانی شکلوں والے ہجوم سے ہوتا ہے۔ اسی ہجوم کا ایک فرد سید ابو ذر بخاری ہے جو وہی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے جس پر اپنے گاہکوں کے کروڑوں روپے لوٹ کر فرار ہونے کا الزام ہے۔

پاکستان میں اگر آپ بہت زیادہ مال دار ہیں اور کار خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سوزوکی یا ٹویوٹا کے مقامی شورومز کا رخ کرنے یا پاک وہیلز نامی ویب سائٹ پر کاروں کے اشتہارات دیکھنے کی بجائے کسی انتہائی پرتعیش کار ڈیلر کا رُخ کریں گے، ایسے میں فراڈ کے بارے میں آپ کا ذہن شائد ہی سوچ پائے۔

صورت حال سادہ ہے، سید ابو ذر بخاری نے اپنے گاہکوں سے لگژری گاڑیوں کی بکنک کے نام پر جزوی قیمت وصول کی مگر یہ گاڑیاں اُن افراد کو کبھی نہیں مل سکیں۔ اس مضمون میں جہاں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ پورشے پاکستان میں کیا ہوا؟ وہیں یہ بھی بتایا جائے گا کہ پاکستان میں ڈیلرز کے ذریعے لگژری گاڑیوں کے کاروبار میں کس قدر نقائص موجود ہیں جس کی بدولت کاروں کے خریدار ہمیشہ فراڈ کی زد میں رہتے ہیں۔

پاکستان میں کاروں کی صنعت کا آغاز

متحدہ ہندوستان کی سڑکوں پر پہلی موٹر کار 1897ء میں دوڑی جس کے تین دہائیوں بعد تک بھی ملک میں خال خال کاریں ہی نظر آتی تھیں جو زیادہ تر امراء، صنعت کاروں، نوابوں اور سیاست دانوں کے تصرف میں تھیں کیوں کہ یہ لوگ باہر سے کاریں درآمد کرنے کی مالی سکت رکھتے تھے۔

برصغیر میں کار سازی کا آغاز 1942ء میں ہوا جب لال چند ہیرا چند نے امریکی آٹو کمپنی کریسلر کے اشتراک سے پریمئیر آٹو موبیل لمیٹڈ قائم کی جس نے ڈی سوٹو ( De Soto) اور پلے مائوتھ (Plymouth ) کاریں بنا کر برصغیر میں آٹو انڈسٹری کی بنیاد رکھی، یہ تقسیم سے ایک سال قبل 1946ء کی بات ہے۔

سید ابوذر بخاری (سی ای او پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ)

تقسیم کے نصف صدی بعد بھارت کی آٹو موبیل انڈسٹری نے زبردست ترقی کی اور آج یہ جرمنی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ دنیا کے پانچ بڑے آٹو موبیل مینوفیکچورز میں شمار کی جاتی ہے۔ 1998ء میں بھارت نے مقامی طور پر پہلی کار ‘ٹاٹا انڈیکا’ بنائی ، گو کہ لگژری کار ساز کمپنی مرسڈیز 1994 میں بھارت میں داخل ہو چکی تھی لیکن یہ 2009ء میں اپنا اسمبلنگ پلانٹ لگا سکی جو پونے کے قریب چاکان میں سو ایکٹر رقبے پر قائم کیا گیا۔ بھارت نے اپنی آٹو موٹیو انڈسٹری پر خوب توجہ دی، یہی وجہ ہے کہ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو جیسی لگژری کار ساز کمپنیاں بھی بھارت کو نظر انداز نہیں کر سکیں مگر پاکستان کے حوالے سے معاملہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔

پاکستان نے اپنی پہلی کار 1953ء میں جنرل موٹرز کی مدد سے تیار کر لی تھی، واکس ہال (Vauxhall ) کاریں، ٹرک اور بسیں 1950ء کی دہائی میں کراچی میں واقع پاکستان کے پہلے آٹو اسمبلی پلانٹ میں بنائی جا رہی تھیں، اس کے بعد 1962 میں اٹلس گروپ نے ہونڈا (Honda) کے ساتھ پاکستان میں موٹر سائیکلز بنانے کے حوالے سے معاہدہ کیا۔

درحقیقت اٹلس گروپ بہت جلد ہونڈا کو پاکستان میں مقبول بنانے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں جاپانی کار ساز اداروں کے سہ فریقی گروہ کا وجود عمل میں آیا جس کی برتری آج بھی قائم ہے۔ 1970ء کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قومیانے کی پالیسی اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں بگ تھری یعنی ہونڈا، سوزوکی اور ٹویوٹا پاکستان میں بڑی کار ساز کمپنیاں بن گئیں، اگرچہ پاکستان کے متوسط طبقہ پر انہی تین کمپنیوں کا کنٹرول ہے اور لوگ اچھی ری سیل ویلیو کی بناء پر ان کی گاڑیاں خریدنا بہتر سمجھتے ہیں مگر پاکستانیوں کے تخیل پر جاپانی نہیں بلکہ جرمن کاریں چھائی رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: رواں سال پاکستان میں کون کون سے ماڈل کی گاڑیاں متعارف کرائی جائیں گی؟

اگرچہ پاکستان کی سڑکوں پر مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور پورشے خال خال ہی نظر آتی ہیں مگر آج بھی جہاں کہیں یہ نظر آتی ہیں تو توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ جرمن کمپنیوں کا پاکستان میں اسمبلی پلانٹ لگانے کا امکان بھی نہیں مگر جرمن گاڑیوں کی کشش کی وجہ سے ان کی درآمد بڑھ رہی ہے۔  دراصل قیام پاکستان کے بعد سے، جب قائداعظم محمد علی جناح ؒ اپنی ذاتی رولز رائس میں سفر کرتے تھے، تب سے ہی ملک کی اشرافیہ کی جانب سے ان لگژری کاروں کی مانگ جاری ہے جسے درآمد کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔

شروع میں زیادہ تر لگژری گاڑیاں حکومت کی جانب سے درآمد کی جاتی تھیں جنھیں سرکاری دفاتر میں استعمال کیا جاتا تھا اور یہ نجی ملکیت کے لیے نہیں ہوتیں تھیں مگر جیسے جیسے جاپانی کاروں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو ملک میں جرمن کاریں تلاش کرنا مشکل تر ہوتا گیا۔ جرمن کمپنیاں درآمد کی انفرادی درخواستوں کو رد کرنے لگیں اور جرمن کاروں کا حصول بہت مشکل ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم ونڈ سکرینوں پر گولیوں کے نشانات والی سمگلڈ شدہ مرسڈیز کاروں کی کہانیاں سنتے تھے اور درجنوں مڈل مینوں کے ذریعے انہیں حاصل کرنے کے باوجود یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ آپ قانونی طور پر اس کے مالک بھی ہیں یا نہیں۔ تاہم آہستہ آہستہ ان کاروں کی درآمد کو لوگوں نے ایک کاروباری موقع جانا اور یہیں سے بااختیار ڈیلرشپ نے جنم لیا۔ بااختیار ڈیلرشپ دراصل وہ کمپنی ہوتی ہے جسے بیرون ملک سے کسی دوسری کمپنی کی کار منگوانے کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں کار بنانے والی کمپنی  کی نمائندگی نہیں کرتیں بلکہ صرف کاروں کی درآمد میں سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہیں۔

بی ایم ڈبلیو کی مثال لیجیے۔ پاک وہیلز کے ایک آرٹیکل کے مطابق دیوان گروپ نے جنوری 2004ء میں بی ایم ڈبلیو کی درآمد کے حقوق حاصل کیے۔  یہ وہی گروپ ہے جس  نے پاکستان میں جدید ترین اسمبلی پلانٹ میں ہونڈائی کی گاڑیاں اسمبل کرکے فروخت کیں مگر بی ایم ڈبلیو پاکستان میں اسمبل نہیں بلکہ درآمد کی جاتی تھیں۔ لہٰذا تمام مقاصد کے لیے اس گاڑی کی درآمد میں دیوان گروپ ایک مڈل مین کا کردار ادا کرتا تھا۔ اگر چہ یہ طریقہ 1970 ء اور 1980ء کی دہائی میں ملک میں کاریں منگوانے کے عمل سے بہتر لگتا ہے لیکن درحقیقت اس میں بھی کئی جھول اور نقائص ہیں جس کا واضح ثبوت حالیہ پورشے فراڈ ہے۔

پورشے فراڈ کیا ہے؟

2019ء کے اوائل میں جب پرافٹ نے پورشے پاکستان سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی تو اس وقت یہ افواہیں بھی زیر گردش تھیں کہ پورشے پاکستان کی جانب سے گاڑیوں کی فراہمی تاخیر کا شکار ہو رہی تھی۔ بعد میں یہ ایک بڑے فراڈ کا معاملہ نکلا جس میں پورشے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید ابو ذر بخاری پر گاہکوں کے 80 کروڑ روپے لے کر فرار ہونے کا الزام ہے۔

اتنی بڑی رقم کوئی مذاق نہیں ہے پھر اسے آٹو موبیل انڈسٹری کی ایک بڑی کمپنی کے نام پر ملک کے امیر ترین اور بااثر افراد سے حاصل کر کے فرار ہو جانا بھی کوئی معمولی بات نہیں، یہ سب کیسے ہوا اور اصل میں ہوا کیا؟ آئیے اس بارے میں بات کا  آغاز پورشے پاکستان کی کہانی سے کرتے ہیں۔

اگر پاکستان  میں آپ پورشے کی گاڑی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ براہ راست پورشے کے ہیڈکوارٹرز، جو جرمن شہر سٹٹ گارٹ میں واقع ہے، سے رابطہ کریں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی بااختیار ڈیلر سے رابطہ کریں جو آپ کے لیے یہ گاڑی بک کروائے گا اور اسے آپ تک ڈلیور کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سات ماہ کے دوران پاکستان میں 81 ہزار 569 کاریں فروخت

اب معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ گاڑی کے حصول کے لیے براہ راست Porsche کو درخواست دیں گے تو وہ آپ کی درخواست رد کر دیں گے، بہ شرط کہ آپ ان کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل نہ ہوں۔ وہ صرف ان گاہکوں کو توجہ دیتے ہیں جو ان کے لیے اہمیت کے حامل ہوں اور اس مقصد کے لیے کمپنی نے پاکستان جیسے ممالک  میں آفیشل امپورٹرز تعینات کر رکھے ہیں جو اسے گاہک فراہم کرتے ہیں۔

2008ء میں پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کا قیام پاکستان میں بطور بااختیار امپورٹر عمل میں لایا گیا، سید ابو ذر بخاری اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے مگرغور طلب بات یہ ہے کہ کمپنی کا قیام Porsche مڈل ایسٹ کے امپورٹر کے طور پر کیا گیا تھا نہ کہ Porsche AG کے نام پر۔ مزید یہ کہ پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کو لیٹر آف انٹینٹ (LOI) کے ذریعے پاکستان میں درآمدکنندہ تعینات کیا گیا تھا۔

یہ کاروباری ماڈل کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ آپ کسی مختص کردہ ڈیلرشپ میں جا کر کسی کار کا انتخاب کرکے اس کی جزوی ادائیگی کرتے ہیں جس کے بعد درآمد کنندہ آپ کا آرڈر کمپنی کو بھجواتا ہے۔ اس سارے عمل کے بعد کمپنی آپ کی گاڑی بنا کر چند ماہ میں آپ کو بھجواتی ہے جس کے بعد آپ بقیہ ادائیگی کرتے ہیں۔ لہٰذا سید ابو ذر بخاری کی جانب سے جزوی ادائیگی کی وصولی کچھ غلط نہیں تھی۔ مسئلہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد پیدا ہوا جس نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبے کے تحت کچھ ریگولیٹری تبدیلیاں کیں جس کے تحت غیرملکی ادائیگیوں کا طریقہ کار سخت ہو گیا۔

اگر واقعی یہ کوئی مسئلہ ہے تو ملک میں دیگر لگژری کاریں درآمد کرنے والے درآمدکنندگان سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ اس سے بہتر انداز میں نمٹنے میں کیسے کامیاب رہے؟ ممکن ہے کہ مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور رینج روور جیسی کمپنیاں اپنے درآمد کنندگان کے ساتھ بہتر سلوک کرتی ہوں مگر یہ ایک انتہائی کمزور دلیل ہے۔

اس حوالے سے پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”ہم  نے Porsche کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے گاہک بااثر افراد ہیں جو بہت جلد مقدمات کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تاہم کمپنی کو قائل نہیں کیا جا سکا جو کہ انتہائی ناگوار تجربہ تھا کیونکہ تنازع صرف دو ادائیگیوں (ایک 88 ہزار یورو اور دوسری 60 ہزار ڈالر) پر تھا۔ یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں تھی کیونکہ ہم 2008ء سے Porsche AG کے ساتھ لاکھوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز کر چکے ہیں۔”

جب سید ابوذر بخاری کی کسی اپیل پر کان نہیں دھرے گئے تو انہوں نے دبئی اور جرمنی میں بیٹھے باسز کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ پرفارمنس آٹو موٹیو تنازع کے حل کے ثالثی کا راستہ اختیار کرے گی۔

سید ابو ذر بخاری نے پرافٹ کو بتایا کہ ”گاہکوں سے رقم کمپنی کی کمٹمنٹ کے بعد لی گئی تھی، میرا کام گاڑیاں ڈلیور کرنا تھا مگر کمپنی نے ڈلیوری روک دی جس کے لیے ہم نے ثالثی کا راستہ اپنایا۔ ”

مگر یہ ایک جلدی میں اٹھایا گیا قدم تھا۔ پرفارمنس آٹو موٹیو کی جانب سے Porsche کے ساتھ ثالثی کی کوشش کے ایک ہفتے کے بعد Porsche ME نے پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے ساتھ  درآمدی معاہدہ ایک سال کے نوٹس کے ساتھ ختم کرنے کا قدم اٹھا لیا۔ 30 جنوری 2020ء کو اس نے معاہدہ ختم کر دیا جس کا اطلاق یکم فروری سے ہوا۔ اس حوالے سے پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے ایک اہلکار نے پرافٹ سے بات چیت میں دعوی کیا کہ Porsche کی جانب سے نوٹس میں اس اقدام کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔

اب مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام گاہک جنہوں نے سید ابو ذر بخاری کو گاڑیوں کی بکنگ کے پیسے دے رکھے تھے انہیں اب لمبا انتظار کرنا ہو گا۔ پرافٹ سے بات چیت میں پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ”جب شروع میں پی ایم ای کو ثالثی کا نوٹس بھیجا گیا تھا تو کمپنی نے سب کے مفاد میں معاملے کے بہتر حل کے لیے 90  روز کے اندر مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا لیکن حیرت انگیز طور پر جب ہم مذاکرات کی تیاری میں مصروف تھے تو 30 جنوری 2020ء کو معاہدے کی منسوخی کا نوٹس مل گیا۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کو معاہدے کی منسوخی کا نوٹس ملا تو کمپنی نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے رابطہ کرکے اسے آگاہ کیا کہ اس کی منظوری کے عمل کی وجہ سے ممکنہ طور پر وہ اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ اگرچہ کمپنی کی جانب سے مسلسل دباؤ کے باعث سٹیٹ بینک نے Porsche ME کو کی جانے والی تمام ادائیگی کلئیر کر دی مگر Porsche ME کی جانب سے معاہدے کی منسوخی کے نوٹس کو واپس نہیں لیا گیا۔

منشاء کی انٹری

اب تک یہ کہانی انتہائی سادہ رہی ہے۔  ایک مقامی امپورٹر کے لگژری کاریں بنانے والی کمپنی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے  جسے اس نے حل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور نتیجے میں نقصان گاہکوں کا ہوا۔  اگرچہ اس معاملے میں Porsche شامل ہے مگر یہ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو بھی ہو سکتی تھیں کیونکہ یہ سب کمپنیاں ایک ہی بزنس ماڈل کے تحت کام کرتی ہیں۔ تاہم ایسا کے علاوہ کسی دوسری کمپنی کے ساتھ نہیں ہوا۔ دراصل Porsche اس صورت حال میں اس لیے پھنسی کیونکہ اس نے یہ جانتے ہوئے بھی جزوی قیمت وصول کر لی کہ ممکنہ طور پر کاریں ڈلیور نہ ہو سکیں گی۔ یہ سراسر غیرذمہ داری کا مظاہرہ تھا اور وہ بھی تب جب دوسرے کئی لوگ پاکستان میں بخاری کے ساتھ مسابقت میں تھے۔

حسن منشاء (ڈائریکٹر نشاط ملز)

یہاں کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور وہ ہے میاں حسن منشاء کی آمد۔ منشا کاروں کے دلدادہ ہیں اور وہ پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے ریگولر گاہک ہونے کے علاوہ ان لوگوں میں شامل تھے جن کی کاروں کی آمد تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔ منشا پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ  کے گاہک تو تھے ہی مگر وہ اس کمپنی کو خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں منشا گروپ کی جانب سے سودے کے لیے پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کو ایک پیشکش بھی کی گئی تھی جسے ابھی قبول کیا جانا باقی تھا۔

کیا یہ ممکن ہے کہ حسن منشا نے پی ایم ای اور پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے خراب ہونے والے تعلقات کو کسی نہ کسی طرح پاکستان میں کمپنی کی ڈیلرشپ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہو؟

منشاء کی جانب سے اکتوبر 2019ء میں Porsche کو ایک ای میل بھیجی گئی جس میں شکایت کی گئی کہ ان کی 911 ٹربو، جو جنوری 2019ء میں دو کروڑ 85 لاکھ روپے کے عوض بک کروائی تھی، انھیں ابھی تک نہیں ملی مگر منشا نے اس ای میل میں صرف لیٹ ڈلیوری کی ہی شکایت نہیں کی بلکہ اپنے گروپ کا پورٹ فولیو بھی Porsche ME کے سامنے رکھا۔ پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ منشاء کے اس اقدام کو سید ابو ذر بخاری کی ساکھ خراب کرنے اور ڈیلر شپ کی حصول کی کوشش قرار دیتی ہے۔ اسی ای میل میں منشاء نے ’مسئلے کے حل کے لیے‘ پی ایم ای انتظامیہ سے ملاقات کی درخواست بھی کی جبکہ ایک دوسری ای میل میں منشا نے پی ایم ای کے باسز سے اس وقت ملاقات کی درخواست کی جب وہ دبئی میں تھے۔

یہ بھی پڑھیے: گندھارا نسان آٹو موبائل پلانٹ کیلئے ضروری مشینری کے حصول کیلئے کوشاں

اس چیز نے یقیناً سید ابو ذر بخاری کو بہت اشتعال دلایا۔ یہاں ایک بار پھر یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں اور Porsche کے معاملے کو بڑھاوا دینے میں ان کی آپسی ناراضگیاں اور دشمنیاں کارفرما رہیں۔ اگرچہ اس معاملے میں منشاء متاثرہ لوگوں میں سے ایک ہیں مگر وہ پاکستان میں کمپنی کی گاڑیوں کی درآمد کا لائسنس بھی حاصل کرنا چاہتے تھے لہٰذا سید ابو ذر بخاری نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ یہ سارا معاملہ انہیں بدنام کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ منشا ڈیلرشپ حاصل کر سکیں۔ یہ دعوے اس لیے بھی بلند بانگ ہیں کیونکہ پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ کے اہلکاروں کے حوالے سے اشارے ملتے ہیں کہ پی ایم ای میں موجود اس کے نمائندگان منشاء کے ساتھ ملے ہوئے تھے مگر اس بات میں زیادہ وزن نہیں اور وہ اس لیے کیونکہ اگر منشاء کو اس طرح کی کوئی مدد حاصل تھی تو انھیں ڈیلرشپ حاصل کرنے اور بخاری کو راستے سے ہٹانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اس حوالے سے پرافٹ سے بات چیت میں حسن منشاء کا کہنا تھا کہ ”میں نے Porsche کو ای میل ضرور بھیجی جس میں کہا کہ اگر آپ پاکستان میں اپنی ڈیلرشپ تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو میں اس حوالے سے سوچ سکتا ہوں لیکن ای میل کا جواب نہیں ملا اور بات آگے نہیں بڑھی۔”

یہاں یہ بات بتانا  بہتر ہے کہ پورشے کے پاکستان میں امپورٹر کے طور پر سید ابو ذر بخاری کا ٹریک ریکارڈ بھی بہت اچھا نہیں۔  پرافٹ کو حاصل ہونے والی ای میل بات چیت میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ بخاری پی ایم ای کی جانب سے الاٹ کردہ کوٹے سے زیادہ گاڑیاں فروخت کر رہے تھے۔ مزید یہ کہ ان کی جانب سے ایسی کاریں، جیسا کہ Porsche 911 بھی بک کروائی جا رہی تھیں جو تیل کے معیار پر تحفظات کے پیش نظر پاکستان میں درآمد نہیں کی جاتی تھیں۔

اُدھر حسن منشاء نے پرافٹ کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے کاروں کی عدم ڈلیوری کی وجہ سے پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ کو ہونے والے نقصان سے نکالنے کے لیے اس میں 50 کروڑ روپے سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی کیونکہ سید ابو ذر بخاری سرمایہ کار تلاش کر رہے تھے۔ تاہم  اس بات چیت میں انہوں نے پاکستان میں Porsche کی ڈیلرشپ کے حصول کی کوشش سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ای کی جانب سے پاکستان میں Porsche 911 درآمد کرنے کی اجازت نہ ہونے کے باوجود سید ابو ذربخاری کی جانب سے ان کاروں کی بکنگ کروانا اپنے آپ میں مشکوک بات ہے۔ پی ایم ای کی جانب سے پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ سے قانونی طور پر اس بابت جواب بھی طلب کیا گیا کہ وہ اپنے کوٹے سے ہٹ کر آرڈر کیوں لے رہے تھے؟

اس حوالے سے حسن منشاء کا کہنا تھا کہ ’’پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کی جانب سے انہیں ایک خط بھیجا گیا جس میں کہا گیا کہ پی ایم ای گاڑیاں فراہم نہیں کر رہی، میں نے یہ خط کمپنی کو بھجوایا  تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو ذر نے ایک جعلی خط بنایا ہے اور اس سلسلے میں ان سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔‘‘

اگرچہ ایندھن کے معیار پر تحفظات اور واجبات کی عدم ادائیگی کی بنا پر Porsche گاڑیاں پاکستان نہیں بھجوا رہی تھی مگر 2019ء میں اس نے ایک مکمل الیکٹرک گاڑی  ٹائیکان Taycan متعارف کرا دی اور پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کو 2019ء میں دس ٹائیکان کاریں درآمد کرنے کے لیے آرڈر لینے کی اجازت دے دی جو کہ 2020ء میں ڈلیور کی جانی تھیں۔

مگر پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کو درآمد کی اجازت دیے جانے کے باوجود پی ایم سی نے ٹائیکان گاڑیاں پاکستان نہیں بھجوائیں۔ یہ وہ چیز ہے کہ جس کا ذمہ دار کمپنی کو ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ کیوں کوٹہ الاٹ کرنے اور گاہکوں سے آرڈر اور ادائیگیاں لینے کے باوجود گاڑیاں ڈلیور نہیں کی گئیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ کی جانب سے اس بار بھی کوٹے سے زیادہ بکنگ تو نہیں کر لی تھی؟

کہانی میں پیچیدگی

اس موقع پر کہانی ممکنہ طور پر ایک بالکل ہی الگ رخ اختیار کر سکتی ہے،  شروع میں ایسا لگا تھا کہ یہ سارا معاملہ ابوذر بخاری کی کسی ایسی غلطی کا شاخسانہ ہے جو سنگین تو ہے مگربہرحال  مشکوک نہیں، جس کی بناء پر وہ ایک ایسی لڑائی میں پھنس گئے جسے جیتنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔  مگر پھر یہ سوچ ذہن کے دریچوں پر دستک دیتی ہے کہ آخر انہوں نے کاروں کی بکنگ کی ہی کیوں جب وہ جانتے تھے کہ ایسا ہو رہا ہے، بالخصوص انہوں نے گاہکوں کے لیے 911 کاریں بک ہی کیوں کروائیں جب انہیں پتہ تھا کہ Porsche پاکستان میں ان گاڑیوں کی درآمد کی اجازت نہیں دیتی۔ اس میں اگر ان کا یہ دعویٰ بھی شامل کر لیا جائے کہ ان کے خلاف سازش ہوئی تو معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے۔

یہاں آ کر کہانی عجیب و غریب رخ اختیار کر لیتی ہے۔ سید ابو ذر بخاری کے خلاف جن لوگوں نے ایف آئی آرز درج کروائی ہیں ان میں اپنے ساتھ ہوئے فراڈ کے بارے میں سب سے زیادہ آواز میاں علی معین اُٹھا رہے ہیں جو گرینڈ سٹی ہاؤسنگ سکیم کھاریاں کے ڈائریکٹر ہیں۔ تاہم جب پرافٹ نے میاں علی معین سے گاڑی کی بکنگ کی مد میں ابو ذر بخاری کو کی جانے والی ادائیگی  کی رسید دکھانے کی درخواست کی تو جو رسید انہوں نے دکھائی اس پر ان کا نام درج نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایف آئی آر، جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ  سید ابو ذر بخاری کے خلاف ان کی جانب سے درج کروائی گئی ہے، میں بھی کوئی مختلف نام درج ہے۔ ایسے میں جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ علی معین خود Porsche کے گاہک نہیں تھے، اگرچہ وہ ہر جگہ خود کو پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ  کے ہاتھوں لٹنے والے شخص کے طور پر ظاہر کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: سال 2020ء: ملک بھر میں کتنی کاریں فروخت ہوئیں؟

مختلف طرز کے دعوؤں کی وجہ سے حقیقت کچھ زیادہ واضح نہیں ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ بخاری نے کوئی انتہائی سنگین غلطی کر دی ہے جس کی لپیٹ میں حسن منشاء جیسے لوگ بھی آ گئے ہیں۔ یہ کہنا آسان نہیں کہ کوئی سازش ہوئی ہے یا نہیں مگر بہ ظاہر بہت سارے لوگ اپنی بہت بڑی رقم سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ معاملہ آسانی سے پس پردہ نہیں جا سکتا اور اس سے بطور برانڈ Porsche کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

اُدھر Porsche ME اور Porsche AG پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ  کی جانب سے ان پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کر چکی ہیں۔ اس حوالے سے پرافٹ کی جانب سے پی ایم ای کے ساتھ بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا جس کے جواب میں کمپنی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ فی الحال معاملے پر کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس وقت پورشے مڈل ایسٹ، افریقہ ایف زیڈ ای اور پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ کے درمیان ثالثی اور قانونی چارہ جوئی چل رہی ہے۔

معاملہ چاہے جو بھی ہو، آخر میں پاکستان میں Porsche گاڑیوں کے خریداروں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی انھوں نے کبھی اُمید نہیں کی تھی۔ اگرچہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ کا کوئی بہت بڑا مبینہ فراڈ سامنے آیا ہے مگر ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ گاہکوں کو Porsche گاڑیوں کی ڈلیوری میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ صارفین کی جانب سے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کاروں کی ڈلیوری میں تاخیر کی شکایت سامنے آتی رہیں ہیں۔

لگژری گاڑیوں کی امپورٹ انڈسٹری میں دیوان گروپ، جو کہ پاکستان میں بی ایم ڈبلیو کی گاڑیاں درآمد کرتا ہے، گاڑیوں کی ڈلیوری اور گاہکوں کے ساتھ کی جانے والی کمٹنٹ پورا کرنے کے حوالے سے انتہائی بدنام ہے۔  پرافٹ سے بات چیت میں مذکورہ گروپ سے خریدی گئی کاروں کے چند مالکان کا کہنا تھا کہ انہیں 2017ء ماڈل کی بی ایم ڈبلیو گاڑیاں 2018ء کے اواخر میں ملیں۔

جو کچھ پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ میں ہوا وہ پاکستان میں لگژری گاڑیاں، خاص کر بی ایم ڈبلیو، منگوانے کے شوقین افراد کے لیے ایک وارننگ ہے۔

پرافٹ سے بات چیت میں ڈی ایچ اے لاہور کے مضافات میں ایم ڈی ایس فوڈز (ہارڈیز) کے مالک عثمان اشرف نے اپنی بپتا کچھ یوں سنائی کہ انہوں نے 2017ء میں بی ایم ڈبلیو فائیو سیریز کی گاڑی بُک کرائی جو 2018ء میں انہیں ملی، اس دوران انہیں دیوان گروپ کی جانب سے ڈلیوری میں تاخیر کے حوالے سے غیر منطقی بہانے سننے کو ملتے رہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب 2018ء میں پاکستان کی بندرگاہ پر عثمان کی گاڑی پہنچی تو تب تک ڈیوٹی اور یورو کا ایکسچینج ریٹ تبدیل ہو چکے تھے جس کی وجہ سے کار کی قیمت میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا تھا۔

اس حوالے سے عثمان کا کہنا تھا کہ ” دیوان گروپ بکنگ کی ابتداء میں ایکسچینج ریٹ پر ہونے والی بات چیت سے پھر گیا تھا اور اگر گاڑی وقت پر ڈلیور ہو جاتی تو ایکسچینج ریٹ میں زیادہ فرق نہ پیدا ہوتا۔ بالآخر طویل تنازع  کے بعد یہ طے ہوا ہوا کہ تاخیر سے ڈلیوری کی وجہ سے ایکسچینج ریٹ میں ہونے والے اضافے کی نصف بھرپائی میں (عثمان) جبکہ نصف دیوان گروپ کرے گا۔”

لیکن لگژری گاڑیوں کی پاکستان میں درآمد کے لیے، آڈی (Audi) پاکستان جس کی ڈیلرشپ پریمیم موٹرز کے پاس ہے،  کا بزنس ماڈل باقی سب سے مختلف ہے۔ اس حوالے سے ان کے ایک گاہک اسد نظامی نے پرافٹ کو بتایا کہ ”آڈی پاکستان  کے سینٹرز پر کاروں کا اسٹاک ہر وقت موجود ہوتا ہے، یہاں ان کاروں کی مانگ بہت زیادہ ہے اور پریمئیر سسٹمز انہیں اپنے اسٹاک میں دستیاب رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں یہاں انہیں خریدار مل ہی جائیں گے۔”

اس ماڈل میں مالی نقصان گاہک کے بجائے درآمد کنندہ برداشت کرتا ہے، پریمئیر سسٹم کوئی کار تب ہی درآمد کرتا ہے جب گاہک کسی ایسی گاڑی کی مانگ کرے جو ان کے اسٹاک میں موجود نہ ہو۔

اسی طرح مرسڈیز کاروں کے گاہک بھی اس کے درآمد کنندہ یعنی شاہ نواز موٹرز کے ساتھ اپنے تجربے سے خوش دکھائی دیے۔ مگر جو بزنس ماڈل پریمیم  اور شاہ نواز موٹرز کا ہے  وہ وہی درآمد کنندہ اپنا سکتا ہے جو مالی طور پر مضبوط بیک اَپ رکھتا ہو۔ وہ کاروباری مالکان، جو بہت زیادہ مالیاتی وسائل نہ رکھتے ہوں، کو مشکل وقت آنے پر بھاگ جانے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔

تاہم ابو ذر بخاری کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مالی طور پر اس مشکل میں اس لیے پھنسے کیونکہ انہوں نے اپنے کاروبار کو رواں رکھنے کے لیے بکنگ اور پیشگی ادائیگیوں کا سلسلہ جاری رکھا مگر گاڑیوں کی ڈلیوری نہ ہونے کی وجہ سے پرفارمنس آٹوموٹیو لمیٹڈ شدید مالی بحران کی لپیٹ میں آ گئی اور یہ اطلاعات کہ سید ابو ذر بخاری سرمایہ کاروں کی تلاش میں تھے، منطقی لگتی ہیں۔

صارفین کا تحفظ کون کرتا ہے؟

سیدھی بات ہے کہ Porsche کے صارفین کے علاوہ بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جنھیں تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے جن کا پیسہ پھنس چکا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا ایسا کوئی ادارہ ہے جس کے پاس لوگ  داد رسی کے لیے جا سکیں؟

ٹیوٹا اور ہونڈا اٹلس جیسے کاروباری گروپ پبلک لسٹڈ کمپنیاں ہیں اور کسی گڑ بڑ کی صورت میں صارفین کی داد رسی کے لیے ان کے اثاثوں کو کام میں لایا جا سکتا ہے۔ پھر کچھ کاروباری گروپ ایسے ہیں جو مالی طور پر اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ اپنے اسٹاک کو رواں رکھ کر صارف کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ ایسے کاروبار بھی ہیں جو اپنے اسٹاک کو رواں رکھنے کے لیے مالی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، جیسا کہ ہم نے Porsche کے معاملے میں دیکھا۔

ایک دوسری مثال کے ذریعے یہ بات سمجھیے کہ مورس گیراج (MG) نے حال ہی میں پاکستان میں اپنی کار متعارف کرائی ہے۔ ایم جی پاکستان کے مالک ہائیر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جاوید آفریدی ہیں۔ ایم جی موٹرز نے حال ہی میں ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ کمپنی نے پاکستان میں دس ہزار کاریں بک کر لی ہیں۔ فرض کیجیے کہ اگر انہوں نے فی بکنگ پیشگی ادائیگی کی مد میں 20 لاکھ روپے بھی وصول کیے ہیں تو یہ دو ارب روپے کی ایک بہت بڑی رقم بنتی ہے۔  یہاں ایک بار پھر معاملہ یہی ہے کہ ایم جی کو یہ سارا پیسہ لے کر بھاگ جانے کی ترغیب میسر ہے کیونکہ اس نے پاکستان میں انفراسٹرکچر میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور گاہکوں کو بنا تاخیر ڈلیوری میں بھی اس کا مالی فائدہ کم ہے۔

تو صارفین کا تحفظ کون کرتا ہے؟  پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ”یہ مکمل طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو کاریں درآمد کرنے والی کمپنیوں کی مالی حیثیت کا علم ہونا چاہیے اور کمپنیوں کو پابند بنانا چاہیے کہ وہ اپنی مالی استطاعت سے زیادہ کاریں درآمد نہ کریں۔ اصولاً سیدھی اور سادہ بات تو یہ ہے کہ  کسی حکومتی ریگولیٹر کو اس طرح کے فراڈ کی ہر ممکن حد تک روک تھام کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ بینکوں کے معاملے میں سٹیٹ بینک آف پاکستا ن ہے۔

سنیل منج کا کہنا تھا کہ ”حکومت کو چاہیے کہ وہ لگژری کاروں کے درآمد کنندگان کو کاروبار شروع کرنے سے پہلے سکیورٹی ڈیپازٹس کا پابند بنائے جس کے بعد یہ درآمد کنندگان صرف اپنے سکیورٹی ڈیپازٹ کی مالیت کے برابر ہی بکنگ کر سکیں۔ گاہکوں سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو کہ کمپنی نے ریگولیٹر کو کتنی سیکیورٹی جمع کروا رکھی ہے اور ایک وقت میں یہ کتنی کاریں بک کر سکتی ہے اور جب کوئی کمپنی مزید کاریں بک نہ کر سکے تو گاہکوں کو اس چیز کا علم بھی بآسانی میسر ہونا چاہیے۔”

80 کروڑ  یا جتنی بھی رقم ہو، پورشے فراڈ کا نشانہ بننے والے افراد مستحق ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کا پیسہ واپس مل سکتا ہے یا نہیں؟ فی الوقت پرفارمنس آٹو موٹیو لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لندن میں ہیں جہاں وہ پورشے اے جی اور پورشے مڈل ایسٹ کے خلاف ثالثی کی کارروائی میں مصروف ہیں۔ اس معاملے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو اس فیصلہ  آنے پر ہی معلوم ہو سکے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here