اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے چھ نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔
جمعرات کو اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 14ویں سربراہ اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ای سی او کے رکن ممالک صحت اور معیشت کے شعبہ میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح شدید متاثر ہوئے ہیں، مجموعی طور پر 15 کروڑ افراد کو وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا اور 25 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو کورونا وبا کی وجہ سے مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک اس وبا کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے، تجارت میں واضح کمی ہو چکی ہے اور غربت کا گراف بڑھ گیا ہے۔
عمران خان نے کہ ای سی او سربراہ اجلاس کا مقصد علاقائی اقتصادی ترقی کے حوالہ سے لائحہ عمل پر غور کرنا ہے، کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے سماجی و معاشی مضمرات کا مکمل تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے، پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو وائرس کا نشانہ بننے اور بھوک سے بچانا ہو گا اور اس حوالے سے اقدامات کرنا ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشی مشکلات کے باوجود حکومت پاکستان نے غیر معمولی اقدامات کئے۔ معیشت کے استحکام، لوگوں کی زندگیاں بچانے اور روزگار کو برقرار رکھنے کیلئے معاشرے کے غریب ترین افراد اور چھوٹے کاروباروں کیلئے احساس پروگرام کے تحت 8 ارب ڈالر کی نقد مالی معاونت اور سبسڈیز فراہم کی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا ابھی موجود ہے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ غریب عوام کو ویکسین تک رسائی ہو، پاکستان میں کورونا وبا سے بچائو کیلئے ویکسین کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے لیکن اس وقت یہ صرف فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو فراہم کی جا رہی ہے، وبا سے بچائو کیلئے عالمی سطح پر ویکسین کی مساویانہ فراہمی بھی ازحد ضروری ہے، جب تک تمام لوگ محفوظ نہیں ہوں گے کوئی محفوظ نہیں ہو گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں کورونا وبا کے معیشت پر اثرات سے بھی نمٹنا ہے، وبا کی وجہ سے عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہوئی ہے، امیر ملکوں نے مجموعی طور پر 20 کھرب ڈالر کے پیکیج دیئے ہیں، لیکن غریب اور کم آمدن کے حامل ملکوں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وبا سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کو صورت حال سے نمٹنے میں مدد کیلئے وہ پہلے ہی پانچ نکاتی پلان پیش کر چکے ہیں جس میں قرضوں میں ریلیف، رعایتی مالی وسائل کی فراہمی، کلائمیٹ فنانس کی فراہمی اور ترقی پذیر ممالک سے لوٹی گئی دولت کی واپسی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ہر سال غریب ممالک سے ایک کھرب ڈالر امیر اور محفوظ تصور کئے جانے والے ممالک کو منتقل ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا پائیدار ترقی کے حصول کیلئے علاقائی تعاون ناگزیر ہے، ای سی او ممالک کی آبادی دنیا کا نصف ہے، یہ 80 لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کو آپس میں ملاتے ہیں، یہ ممالک وسائل سے مالا مال ہیں اور یہ ممالک سب سے زیادہ پیداوار اور کھپت کے حامل ممالک بن سکتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وژن 2025ء کے تحت ای سی او ممالک نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سیاحت اور صنعتی ترقی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا ایجنڈا ترتیب دیا ہے۔ ہمیں اس سلسلہ میں ہونے والی پیشرفت کا وسط مدتی جائزہ لینا ہو گا اور عملدرآمد کی رفتار تیز کرنا ہو گی اور تعاون کا دائرہ مزید وسیع کرنا ہو گا۔ ہمیں جغرافیائی محل وقوع، اقتصادی اثاثوں اور سیاسی روابط سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینا ہو گی، اقتصادی سرگرمیاں پیدا کرنا ہوں گی اور تجارت بڑھانا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ای سی او ممالک کے درمیان تجارت کیلئے ٹرانسپورٹ کا جامع نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، اسلام آباد استنبول تہران کارگو ٹرین کے ساتھ ساتھ ازبکستان افغانستان پاکستان ریلوے رابطہ علاقے میں ترقی کیلئے اہم ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے افغانستان سمیت مشرق وسطیٰ تک رسائی اہمیت کی حامل ہے۔ تاپی اور کاسا۔1000 جیسے منصوبے جن پر ای سی او ممالک پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں انہیں آگے بڑھانے اور ای سی او انویسٹمنٹ ایجنسی کے قیام کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری باہمی تجارت مجموعی تجارت کا صرف 8 فیصد ہے اسے 10 گنا بڑھانا چاہئے اور تجارت کے فروغ کیلئے سرحدی امور کو آسان بنایا جانا چاہئے تاکہ بین العلاقائی تجارت کو فروغ مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ای سی او ٹریڈ ڈویلپمنٹ بینک سمیت علاقہ میں تجارت کے فروغ کیلئے ای سی او ٹریڈ ایگریمنٹ کو فعال بنایا جانا چاہئے، ہمیں علم پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہو گا اور ڈیجیٹلائزیشن اور بالخصوص براڈ بینڈ کو وسعت دینا ناگزیر ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ای سی او نے وژن 2025ء کے تحت دوسری علاقائی عالمی تنظیموں کے ساتھ بات چیت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے، ہمیں آسیان، یورپی یونین اور افریقن یونین جیسے کامیاب ماڈلز کو اپنانا ہو گا، پاکستان ای سی او وژن 2025ء پر عملدرآمد کیلئے مکمل تعاون کرے گا۔