امریکا کتنے کھرب ڈالر کا مقروض ہے؟

’پوری دنیا کے تمام ارب پتی انسانوں کی دولت کو جمع کیا جائے اور اس دولت سے امریکا کے ذمے قرضے واپس کر دیے جائیں تو پھر بھی ان قرضوں کا نصف بھی ادا نہیں ہو سکے گا‘

1272

واشنگٹن: امریکی کانگرس کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کھربوں ڈالر کے قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے اور اس کا مجموعی قرضہ تقریباََ 29 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

امریکا پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود عوامی قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ پوری دنیا کے تمام ارب پتی انسانوں کی دولت کو جمع کیا جائے اور اس دولت سے امریکا کے ذمے قرضے واپس کر دیے جائیں تو پھر بھی ان قرضوں کا نصف بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔

شماریاتی حوالے سے یہ بات بھی واشنگٹن حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننا چاہیے کہ اگر امریکا کو اپنے ذمے تمام قرضے ادا کرنا ہیں، تو اس کے لیے اتنی زیادہ رقوم درکار ہوں گی کہ مثال کے طور پر دنیا کے ہر انسان کو امریکا کو قریب 3000 ڈالر عطیے کے طور پر دینا ہوں گے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق انہی قرضوں کے پہاڑ کی جانب توجہ کانگرس کے اجلاس کے دوران قانون دان الیکس مونے (Alex Mooney) نے دلائی کہ امریکا اس وقت 29 کھرب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے اور سب سے زیادہ قرضہ چین اور جاپان کا ہے جبکہ 216 ارب ڈالر بھارت کا قرضہ بھی شامل ہے۔

سال 2020ء میں امریکہ کا مجموعی قرضہ 23.4 کھرب ڈالر تھا یعنی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر امریکی شہری 72 ہزار 309 ڈالر کا مقروض تھا۔

کانگرس مین الیکس مونے نے کہا کہ “ہمارے قرضوں میں 29 کھرب ڈالر تک اضافہ ہو چکا ہے لیکن قرضوں میں اضافے سے متعلق کئی طرح کی غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں، دو ممالک جن کے ہم مقروض ہیں اور جو حقیقت میں ہمارے دوست بھی نہیں وہ چین اور جاپان ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ “ہمارا ہر وقت چین کے ساتھ عالمی سطح پر مقابلہ رہتا ہے لیکن ان کے کئی ارب ڈالر ہماری جانب واجب الادا ہیں، ہم چین اور جاپان پر ایک، ایک کھرب ڈالر کے مقروض ہیں”۔

اقتصادی اور سیاسی سطح پر امریکا کا ایک بڑا حریف ملک چین ہے، جو اب کافی برسوں سے جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ خود چین تک نے اتنی زیادہ مالیت کے امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں کہ دیکھا جائے تو امریکا کے وفاقی بجٹ کا کافی زیادہ حصہ تو چینی سرمائے سے چلایا جا رہا ہے۔

چین نے امریکی ٹریژری بانڈز کی شکل میں واشنگٹن کے ذمے جو قرضے خرید رکھے ہیں، ان کی مجموعی مالیت 1.2 ٹریلین یا 1200 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمن سرمایہ کار اداروں اور شخصیات نے بھی امریکا کے قریب 90 ارب ڈالر کے قرضے انہی بانڈز کی شکل میں خرید رکھے ہیں۔

رکن کانگریس الیکس مونے کے مطابق “معاملات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو گئے ہیں، کانگریشنل بجٹ آفس نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2050ء تک 200 فیصد اضافے سے مزید 104 کھرب ڈالر قرضوں میں شامل ہو جائیں گے۔”

واضح رہے کہ جنوری میں امریکی صدر جوبائیڈن نے وبا سے معاشی بدحالی پر قابو پانے کے لیے 1.9 کھرب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت امریکی شہریوں کو براہِ راست مالی امداد کے علاوہ طبی کاروباروں کی مالی معاونت اور نیشنل ویکسی نیشن پروگرام کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، اس پیکج کی منظوری حال ہی میں ایوان نمائندگان نے دی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here