پاکستان اور قطر کے درمیان 10 سال کیلئے ایل این جی کا اہم معاہدہ طے پا گیا

پرانی قیمت پر ایل این جی لیتے تو پاکستان کو 31 کروڑ 60 لاکھ ڈالر زیادہ ادا کرنا پڑتے، 10 سال میں ملک کو تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی، 31 فیصد سستی ایل این جی حاصل کی گئی ہے:  معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کی پریس کانفرنس

885

اسلام آباد: پاکستان اور قطر کے درمیان دس سال کیلئے ایل این جی کا اہم معاہدہ طے پا گیا، پچھلے معاہدہ کے مقابلہ میں قطر سے 31 فیصد سستی ایل این جی حاصل کی جائے گی۔

ایل این جی کے نئے معاہدے کیلئے دستخط کی تقریب جمعہ کو منعقد ہوئی، تقریب میں وزیراعظم عمران خان بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر بجلی و پٹرولیم عمر ایوب خان اور قطر کے وزیر توانائی سعد شریدہ القابی نے نئے معاہدے پر دستخط کئے۔

نئے معاہدے کے تحت قطر پاکستان کو 10 سال کیلئے تین ملین ٹن ایل این جی فراہم کرے گا۔ قطر پٹرولیم کی جگہ قطر گیس کمپنی ایل این جی فراہم کرے گی۔ اس موقع پر قطر کے وزیر توانائی سعد القابی نے کہا کہ پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی معاہدہ تاریخی ہے، مختلف شعبوں میں باہمی مفاد میں مزید تعاون کو فروغ دیں گے۔

بعد ازاں پریس کانفرنس میں معاہدہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے وزیراعظم معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ سابق حکومت نے ایل این جی کا 15 سال کا معاہدہ کیا تھا اور 10 سال کیلئے قیمت طے کر دی گئی تھی اور 13.37 فیصد برینٹ پر قیمت مقرر کی گئی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے نیا معاہدہ 10 سال کی مدت کیلئے 10.2 فیصد برینٹ پر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سات ماہ کے دوران قطر سے 50 کروڑ ڈالر سے زائد ترسیلات زر  موصول

ایل این جی خریداری کیلئے پٹرولیم ڈویژن کو پیپرا رولز سے استثنیٰ مل گیا

مارچ کیلئے ایل این جی کارگوز خریدنے میں تین کروڑ بچائے، پٹرولیم ڈویژن

انہوں نے کہا کہ پرانے معاہدے کے تحت 170 ملین ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ حکومت پاکستان دے رہی تھی، اس نئے معاہدے کے تحت صرف 84 ملین ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ دیا جائے گا، اس طرح لیٹر آف کریڈٹ آدھا کر دیا گیا ہے، اس معاہدے میں دو بحری جہاز ماہانہ سے شروع کریں گے اور تین سال کے عرصہ میں بڑھ کر دو سے چار بحری جہازوں تک ہو جائے گا۔

ندیم بابر نے کہا کہ پرانے معاہدوں میں سے ایک کی مدت دسمبر میں ختم ہو گئی جو 13.37 فیصد برینٹ کی قیمت پر تھا۔ دوسرا معاہدہ اگلے سال آج سے تقریباََ 14 ماہ بعد ختم ہو جائے گا، جب نیا معاہدہ مکمل طور پر لاگو ہو جائے گا تو ہم ان دو مہنگے معاہدوں کی جگہ تین سال کے عرصہ میں دو اضافی بحری جہاز ماہانہ اضافی طلب کو سامنے رکھتے ہوئے اسی قیمت پر خرید کر لا سکیں گے۔

معاون خصوصی برائے پٹرولیم نے کہا کہ جو پچھلا معاہدہ دسمبر میں ختم ہو رہا تھا اس میں ایک بحری جہاز ہر مہینے 13.37 فیصد کی قیمت پر لایا جاتا تھا۔ نئے معاہدے میں یہ گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ اگر ہم رواں سال کے آخر میں موسم سرما میں فالتو ایل این جی حاصل کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں، ویسے یہ معاہدہ آئندہ سال جنوری سے شروع ہونا ہے لیکن ہم دو تین ماہ پہلے بھی اس پر عملدرآمد کرا سکتے ہیں۔

ندیم بابر نے کہا کہ ہم مہنگی ایل این جی کی جگہ اب 31 فیصد سستی ایل این جی حاصل کریں گے، سپاٹ خریداری کے حوالہ سے جب سے ایل این جی کی درآمد شروع ہوئی ہے، تب سے دسمبر 2020ء تک سپاٹ کی اوسط قیمت 11.90 فیصد رہی جبکہ معاہدہ 13.37 فیصد کا تھا، اب نئے معاہدہ کے تحت ایل این جی 10.2 فیصد کی قیمت پر لائی جائے گی اور اس طرح سپاٹ سے بھی 15 سے 16 فیصد سستی ایل این جی حاصل ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ قطر گیس کمپنی ایل این جی فراہم کرے گی، اس سے گیس کی فراہمی میں استحکام اور سکیورٹی ہو گی اور قیمت کے لحاظ سے بھی بہت فائدہ ہو گا۔ یہ معاہدہ دنیا میں کم ترین قیمت کا ایل این جی معاہدہ ہے۔

ایک سوال کے جواب ندیم بابر کا کہنا تھا کہ قیمت کے حوالہ سے چار سال بعد تجدید کی جا سکتی ہے، ہم نے مہنگے معاہدہ کی جگہ سستا معاہدہ کیا ہے، پرانے معاہدہ کے تحت پانچ کارگوز ٹرمینل وَن پر آتے تھے جبکہ ٹرمینل ٹو پر دو کارگوز لائے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ باقی تمام سپاٹ خریداری ہے، قطر کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں لچک رکھی گئی ہے اور دونوں ٹرمینلز میں سے کسی پر بھی کارگوز لائے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بحری جہازوں سے آنے والے ایل این جی کا حجم دیکھا جائے تو پرانی قیمت کے مقابلہ میں ہمیں تقریبا 316 ملین ڈالر ایل این جی حاصل ہو گی اور 10 سال میں تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔

ندیم بابر نے کہا کہ سستی ایل این جی کے معاہدہ کیلئے بات چیت کا آغاز پونے دو سال پہلے ہوا تھا، وزیراعظم عمران خان نے بھی امیر قطر سے اپنے دوروں کے دوران اس موضوع پر بات چیت کی، دیگر بھی متعدد دورے ہوئے، تیل و گیس کے شعبہ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو حقائق کا بخوبی علم ہے، قطر نے معاہدہ کرتے وقت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی مدنظر رکھا ۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here