اسلام آباد: واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے طویل انتظار کے بعد ٹیلی میٹری سسٹم کا پی سی وَن انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کو جمع کرا دیا جسے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 2021-22ء کا حصہ بنایا جائے گا۔
گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس سینیٹر شمیم آفریدی کی سربراہمی میں منعقد ہوا جس میں سیکریٹری وزارتِ آبی وسائل منیر اعظم نے کمیٹی کے ارکان کو ٹیلی میٹری سسٹم اور صوبوں میں پانی کی تقسیم جیسے معاملات پر بریفنگ دی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سندھ اور بلوچستان کے پانی کی منصفانہ تقسیم پر سنگین تنازعات ہیں، دونوں صوبوں کو جاری کیے گئے پانی کی پیمائش کیلئے نہروں اور بیراجوں پر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کیا جائے گا جس کا پی سی ون واپڈا نے ارسا کو جمع کرا دیا ہے، پی سی ون کا جائزہ لیا جائے گا اور اگر اس میں کسی قسم کی کمی ہوئی تو نشاندہی کی جائے گی۔
ارسا کی طرف سے یہ واضح کیا گیا ہے چونکہ منصوبے کی لاگت دو ارب روپے سے زائد ہے، اس لیے وزارتِ آبی وسائل پی سی وَن کی منظوری کے لیے منصوبے کو سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے سامنے پیش کرے گی۔
نہروں اور بیراجوں پر ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب جولائی 2023ء تک متوقع ہے لیکن وزارتِ آبی وسائل نے چھ ماہ کا اضافی وقت مانگا ہے حالانکہ ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کے مقامات کا تعین پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
قائمہ کمیٹی نے پانی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنے اور اس کے ضیاع کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے پر زور دیا، وزارتِ آبی وسائل کے جوائنٹ سیکرٹری مہر علی شاہ نے کہا کہ پانی کی مقدار کوٹری سے نیچے کم جا کر کم ہوتی ہے تو اس مسئلے پر تفتیش کی ضرورت ہو گی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ سالانہ چھ ملین ایکڑ فٹ کے قریب پانی کا ضیاع ہوتا ہے جسے میگا ریزروائر کی تعمیر کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی عدم صلاحیت کی وجہ سے گزشتہ 44 سال سے قومی خزانے کو 600 ارب ڈالر نقصان ہو چکا ہے۔
1976ء میں ملک کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 15.7 ملین ایکڑ فٹ تھی جو کم ہو کر 13.6 ملین ایکڑ فٹ پر آ گئی ہے اور مون سون کے سیزن میں دریاؤں سے آنے والا پانی ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر ضائع ہو جاتا ہے۔
سینیٹر ولید اقبال، جنہوں نے ملک میں پانی کے سنگین درپیش مسائل پر کئی سوالات اٹھائے تھے، نے کہا کہ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے زیادہ ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت تھی۔
جوائنٹ سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کے نظام میں بہتری آئے گی، چئیرمین ارسا نے کہا کہ اس سے پانی صرف اس صورت میں ذخیرہ ہو گا جب تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد زیادہ ہونے کی وجہ سے ذخیرہ نہ کی جا سکے گی۔
چئیرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ جب تک وزارتِ آبی وسائل کو مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کیے جائیں گے تو جاری منصوبے کیسے بروقت مکمل ہو سکیں گے؟ کمیٹی نے پانی پر فی ایکڑ 1500 روپے نافذ کرنے پر بھی گفتگو کی جس کے ذریعے 80 ارب روپے کی رقم اکٹھی کی جا سکے گی جسے بعدازاں پانی کے ترسیلی نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
چئیرمین ارسا نے ایک نوٹ میں کہا کہ 70ء کی دہائی میں پنجاب میں آبیانہ (واٹر چارج) عائد کیا گیا جس سے کافی رقم جمع ہوتی تھی لیکن 2019ء میں صرف ایک ارب روپے ہی اکٹھے کیے جا سکے جبکہ پانی کی تقسیم کے نظام کے لیے 20 ارب روپے خرچ ہونا ہیں۔