اسلام آباد: وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے کہا ہے کہ اب تک ریلوے کی 10 ارب روپے مالیت کی اراضی واگزار کرائی ہے، ریلوے اور صوبائی پولیس کی ملی بھگت کے بغیر زمینوں پر قبضے نہیں ہو سکتے، کرپشن اور بدانتظامی میں ملوث افسروں کو جبری ریٹائر کیا جائے گا، صوبائی حکومتوں کو کہا ہے کہ ریلوے کے بقایا جات ادا کئے جائیں۔
ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر بہرہ مند تنگی کے سوال کے جواب میں وزیر ریلوے اعظم سواتی نے بتایا کہ ریلوے جب انگریزوں نے بنایا تو پوسٹ آفس اور ریلوے کے محکمے بزنس کے لئے رکھے تھے لیکن ہم نے ان کو چیریٹی کیلئے رکھا ہوا ہے اور جان بوجھ کر ان اداروں کو اپنے لوگ بھرتی کر کے تباہ کیا اور ان اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اب ریلوے کا بزنس تیزی سے بڑھ رہا ہے، عمران خان کی حکومت میں پہلی بار ریلوے منافع میں جائے گا، ایسا بزنس پلان بنایا ہے کہ 1947ء کے بعد ریلوے پہلی بار منافع بخش ادارہ بنے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
ریلوے ملازمین کے اوور ٹائم پر پابندی عائد
ریلوے میں ایک کھرب 20 ارب روپے ڈوب چکے: اعظم سواتی
ایم ایل وَن پروجیکٹ پر کام مئی کے پہلے ہفتے شروع ہو گا: وزیر ریلوے
سینیٹر عائشہ رضا فاروق کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریلوے کی اڑھائی سالہ کارکردگی کے بارے میں سوال کرنے والے یہ بھی بتائیں کہ 30 سال پہلے ریلوے کون چلا رہا تھا، تب ریلوے کی کیا کارکردگی تھی، صوبائی حکومتوں کو کہا ہے کہ ریلوے کی ادائیگیاں کی جائیں۔ چیئرمین سینیٹ نے یہ سوال بھی متعلقہ کیٹی کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جائے۔
سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں وزیر ریلوے نے بتایا کہ ان کے وزارت سنبھالنے کے بعد ایک ماہ میں 10 ارب روپے مالیت کی اراضی واگزار کرائی گئی ہے اور اس سلسلے میں تیزی سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے پولیس، صوبائی پولیس سمیت ریلوے حکام بھی قبضوں میں ملوث ہیں، اب تجاوزات اور قبضے ختم کرائے جا رہے ہیں۔ کئی سینئر افسروں کو جبری ریٹائر کیا جائے گا جو بدانتظامی، کرپشن اور قبضوں میں ملوث ہیں۔
اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ریلوے کی زیادہ تر اراضی پر سندھ اور پنجاب میں قبضہ کیا گیا ہے، ریلوے اور پولیس کی ملی بھگت کے بغیر قبضے نہیں ہو سکتے۔ صوبوں کے پاس ریلوے کی جو زمین ہے وہ واپس کرنے کا سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا۔
سینیٹر عتیق شیخ کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ریلوے کی بہت زیادہ زمین کمرشل ہے جن زمینوں کو واگزار کیا گیا ہے ان کے کئی کیسز بھی عدالتوں میں ہیں اس لئے ان لوگوں کے نام نہیں بتا سکتا، کئی جگہیں ہم نے سپریم کورٹ کے حکم کے ذریعے واپس کی ہیں۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد قبضہ کرنے والوں کے نام سامنے لے آئیں گے۔
سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے 1999ء میں بند ہوئی تھی، سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ اسے فوری بحال کیا جائے۔ 14 کلومیٹر کا حصہ بحال کر چکے ہیں، مزید 16 کلومیٹر کیلئے چیف جسٹس نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ فلائی اوور اور انڈر پاس بنائے جائیں۔ ان کے مکمل ہوتے ہی سرکلر ریلوے مکمل بحال ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ کے سی آر ٹو کا منصوبہ بھی شروع کرنے جا رہے ہیں، یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ہو گا، سندھ حکومت اس کو ہمارے ساتھ مل کر چلائے، اگر صوبہ نہیں چلائے گا تو ریلوے چلائے گا۔ اس منصوبے کیلئے کنسلٹنٹ ہائر کر لیا ہے۔