اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے نمائندوں، وزارت کے عہدیدار اور روئی کی ماہرین نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر نے شرکاء کے ساتھ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی بحالی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، عملے کی اہلیت، فنڈز اور پیداوار جیسے مسائل بھی زیر غور آئے۔ کسانوں کی پیداوار اور فروخت کی لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیڑوں اور کیڑے مار ادویات کے معاملات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
یہ تجویزدی گئی تھی کہ بائیو ٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال بین الاقوامی تعاون کے ساتھ کیا جائے گا، اس پر مزید تبادلہ خیال کیا گیا کہ کپاس کی بحالی تحقیق کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیے:
کپاس کی پیداوار میں 34 فیصد کمی، ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ
کپاس کی پیدوار خطرناک حد تک کم، زراعت، ٹیکسٹائل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
صدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے بتایا کہ پیداوار کی لاگت کو کم کرنا اور کم سے کم سپورٹ قیمت مقرر کی جانی چاہیے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مقامی کاشتکاروں کے فروغ کے لئے درآمد شدہ روئی پر ٹیکس اور ڈیوٹی عائد کرنے اور مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر ڈاکٹر اقبال بانڈیشہ نے کہا کہ کپاس کی بوائی وسط مئی سے پہلے نہیں کی جانی چاہئے تاکہ مون سون کے نقصان سے بچا جا سکے۔
وفاقی وزیر سید فخر امام نے کہا کہ کپاس پاکستان کی ایک اہم فصل ہے، پاکستان میں خوردنی تیل کا سات فیصد کاٹن سیڈ کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے، 2021ء کپاس کے لئے میک اور بریک کا سال ہے۔
اس موقع پر پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے نمائندے نے کہا کہ کپاس کی کاشت کاری میں دنیا بھر میں تبدیلی آ رہی ہے ، ہمیں بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق اقدامات اٹھانا ہوں گے۔