اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے کمیٹی کے بجائے کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، یہ کمیشن کسی بھی شخص یا ادارے کو طلب اور دستاویزات حاصل کرنے کا اختیارات رکھتا ہے۔
منگل کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کئی اہم مسائل زیربحث آئے۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ براڈ شیٹ ایک ایسی خبر ہے جس نے ہماری پارٹی کے موقف پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے، ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ این آر او کلچر ملک کو پیچھے لے گیا ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب بھی برسراقتدار پارٹی کے اہم لوگوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے تو مصلحت کے تحت ان کو راستہ دیا گیا جس کی وجہ سے کرپشن کرنے والوں نے اپنی سیاست کو استعمال کرتے ہوئے سودا بازی کی۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ جب بھی این آر او ہوتا ہے ملک کی اخلاقی حیثیت پر سمجھوتہ ہوتا چلا جاتا ہے، وزیراعظم عمران خان نے اس کلچر کو چیلنج کیا۔ براڈشیٹ سے ثابت ہوا کہ کس طرح سیاسی مصلحت کے تحت ناصرف اُن کو چھوڑا گیا بلکہ ان میں شامل لوگ صدر، وزیراعظم اور وزراء بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب معاہدہ حکومت پاکستان نے کیا ہو تو اس کی لاج رکھنی پڑتی ہے، موجودہ حکومت اگر براڈشیٹ معاملے میں ادائیگی نہ کرتی تو جہاز کی طرح ہمارے بیرونی اکائونٹس ضبط ہونے کا خدشہ تھا۔
کابینہ اجلاس کے حوالے سے سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے کابینہ کو جولائی تا دسمبر 2020ء میں اقتصادی و معاشی اعشاریوں میں نمایاں بہتری کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
شرکاء کو بتایا گیا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران برآمدات میں کئی سالوں کی نسبت اضافہ دیکھا گیا جبکہ ترسیلات زر میں 2.8 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، پچھلے سال کے مقابلے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر اضافہ ہوا، ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے جبکہ اپریل 2018ء کے بعد سٹاک مارکیٹ بلند سطح پر ہے۔
اسد عمر نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ صرف دسمبر 2020ء کے دوران ٹیکس محصولات میں 7.9 فیصد اضافہ دیکھا گیا، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت اخراجات پچھلے سال سے 7.4 فیصد زیادہ رہے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران پہلے چھ ماہ میں پی ایس ڈی پی فنڈز کا استعمال سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ محصولات اخراجات سے زیادہ رہے جبکہ زراعت کے شعبے میں چاول کی پیداوار میں 10 فیصد اضافہ، گنے کی پیداوار 13 فیصد اضافہ اور مکئی کی پیداوار میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ منیوفکچرنگ کے شعبے میں خوش آئند اضافہ ریکارڈ کیا گیا، لارج سکیل منیوفکچرنگ 7.4 فیصد بڑھی، صرف دسمبر کے مہینے میں لارج سکیل منیوفکچرنگ میں 14.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ 12 سالو ں میں سب سے زیادہ ہے۔
افراط زر کے حوالے سے کابینہ کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال افراط زر کی شرح اوسطاً 11.1 فیصد رہی جبکہ موجودہ سال کے چھ ماہ میں یہ شرح 8.6 فیصد ہے، دسمبر میں افراط زر کی شرح 6.4 فیصد رہی، آئندہ مہینوں میں بھی مہنگائی میں مزید کمی متوقع ہے۔
کابینہ اجلاس میں مزید کیا فیصلے ہوئے؟
وفاقی کابینہ نے نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کو وزارت برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات اور سپیشل انیشی ایٹو کے زیرانتظام لانے اور ادارے کے مستقبل کے تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے تشکیل شدہ کابینہ کی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیدی۔
کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ڈیلی ویجرز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے کمیٹی کی تشکیل نو کی منظوری دی۔
وفاقی کابینہ نے نیشنل انسٹیٹوشنل فیسیلی ٹیشن ٹیکنالوجیز کے زیر انتظام تمام درجوں کی ملازمت پر پاکستان اسینشل سروسز (مینٹی نینس) ایکٹ 1952ء کے اطلاق میں چھ ماہ تک توسیع کی منظوری دے دی۔
کابینہ نے پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن اور سیکیورٹی پیپرز لمیٹڈ کراچی کے ملازمین پر پاکستان اسینشل سروسز (مینٹی نینس) ایکٹ 1952ء کے اطلاق میں چھ ماہ تک توسیع کی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے نادرا کے مالی سال 2019-20ء کے اکائونٹس کے آڈٹ کے لیے چارٹرڈ اکائونٹنٹ فرم کے تقرر کی منظوری بھی دے دی۔
کابینہ نے ورکرز ویلفیئر فنڈ ہائوسنگ الاٹمنٹ پالیسی 2020ء کے مسودے اور اس پالیسی کے تحت ورکرز ویلفیئر فنڈ اور نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی منظوری دے دی۔
ارکان نے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے 18 جنوری 2021ء اور 21 جنوری 2021 کے اجلاسوں میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کر دی جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 20 جنوری 2021ء کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی چند ہدایات کی روشنی میں توثیق کر دی۔ اسی طرح کابینہ کمیٹی برائے ریاستی ملکیتی اداروں کے 20 جنوری 2021ء کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کر دی گئی۔
وفاقی کابینہ نے سیکرٹری ورکرز ویلفیئر فنڈ کی تعیناتی کی منظوری دی جبکہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے انتخابات کے حوالے سے نامزدگیوں کی منظوری بھی دی۔
سینیٹ الیکشن
وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور ہماری پارٹی چاہتی ہے کہ سینٹ کے الیکشن شفاف طریقے سے ہوں، تاریخ گواہ ہے سینیٹ الیکشن میں ووٹ خریدے اور بیچے جاتے رہے، ایسے پارلیمان کا کیا فائدہ جس میں پیسے کے بل بوتے پر لوگ آئیں۔
انہوں نے کہا ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کیلئے اوپن بیلٹ کی بات کی گئی، اگر ضرورت پڑی تو سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لئے آئینی ترامیم بھی کی جائیں گی، وہ لوگ جو سینٹ کے اندر یا باہر الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ میثاق جمہوریت میں مطالبہ تھا۔
سکوک بانڈز
شبلی فراز نے کہا کہ سکوک بانڈز پہلی دفعہ نہیں جاری ہوا، 2008ء سے یہ سلسلہ چل رہا ہے، اسلامک فنانسنگ میں ایک شرط ہوتی ہے کہ اس میں ایک اثاثہ چاہیے ہوتا ہے، حکومت اپنی گارنٹی بھی دے سکتی ہے، ماضی میں موٹر وے، ائیرپورٹ بھی سکوک بانڈ کے لئے رکھے گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بیرونی قرضوں میں 11 کھرب روپے اضافہ ہوا ہے جس میں چھ کھرب روپے پچھلے قرضوں پر سود کی ادائیگی، ساڑھے تین کھرب روپے پیسے کی قدر کم ہونے سے جبکہ ایک کھرب 20 ارب روپے کووڈ پیکیج کی مد میں تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن کی چیخوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ایک دیانتدار شخص سے ڈر رہے ہیں، جسٹس عظمت سعید شیخ کا نیب سے سپریم کورٹ تک وسیع تجربہ ہے۔ ابھی تک عظمت سعید شیخ کا انکار موصول نہیں ہوا، امید ہے کہ وہ ہی کمیشن کی سربراہی کریں کے۔