پاکستان قرضوں کے جال سے نکلنے میں ناکام کیوں؟

موجودہ حکومت نے پاکستان کے قرضوں میں اضافہ نہ کرنے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے حوالے سے بلندوبانگ دعوے کیے تھے مگر اپنے قول کے برعکس اس نے عملاً ملکی تاریخ میں قرضوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے

2836

وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران سب سے زیادہ پاکستان کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے کے بارے میں بات کی، 2018ء میں اقتدار ملنے سے قبل عمران خان آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے لی جانے والی مالی معاونت کو ملکی معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیتے تھے۔

بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے اس بیانیے کو کافی پذیرائی ملی، وہ اپنے جلسوں ببانگ دہل کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے لیکن کبھی ہاتھ میں کشکول لے کر کسی سے قرضوں کی بھیک نہیں مانگیں گے، اگرچہ عمران خان نے عوام کا شعور بیدار کیا لیکن شائد یہ خیال نہیں کیا کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے پاس بعض اوقات اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ملک چلانے کیلئے آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرضہ حاصل کرے۔

لہذا جب پاکستان تحریک انصاف مرکز میں مسند اقتدا پر بیٹھی تو اسے اپوزیشن کے دنوں میں کیے گئے اپنے دعوئوں اور وعدوں سے شرمندگی کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا اور وزیراعظم عمران خان کو چین اور مسلم دنیا میں دوست ممالک کے ہنگامی دورے کرنا پڑے تاکہ ان سے قلیل المدتی قرضے حاصل کر کے ‘ڈار نومکس’ (سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی منصوبہ بندی) کے تحت پانچ سال تک چلائی جانے والی معیشت کو بدحالی سے نکالا جا سکے۔

یہ شرمناک مگر بدترین صورت حال نہیں تھی، اصل مسئلہ تو آئی ا یم ایف تھا جس کی عمران خان برسوں مخالفت کرتے رہے  مگر بالآخر معاشی صورت حال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑا اور پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسا 22ویں مرتبہ ہوا۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی ملکی قرضوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے لیکن یہ کوئی اَنہونی نہیں، تقریباََ تمام نئی آنے والی حکومتوں نے اپنی پیشرو سرکاروں کے نسبت ملکی قرضوں میں اضافہ ہی کیا ہے، مسئلہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی تاریخ اور وہ تاریک گڑھا ہے جس میں ہم مزید گہرائی میں گرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کی تاریخ 

دنیا کے 190 ممالک آئی ایم ایف کے رکن ہیں، اس کا مقصد عالمی سطح پر مالی تعاون کو فروغ دینا، معاشی استحکام کے لیے مدد فراہم  کرنا، عالمی تجارت میں معاونت، مستحکم معاشی ترقی، ملازمت کے مواقع میں اضافہ اور غربت میں کمی جیسے اقدامات اٹھانا ہے۔ پاکستان 1950ء میں آئی ایم ایف کا رکن بنا اور 1958ء میں پہلی بار قرضہ لیا، تب سے لے کر پاکستان 21 بار آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکا ہے جس میں 12 بار بیل آؤٹ پیکج لیا گیا، گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان  آئی ایم ایف کی کرنسی  (SDR) کے مطابق 27 ارب ڈالر کا قرض لے چکا ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر ندیم الحق (وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس)

جب بات پاکستان کی ہو تو آئی ایم ایف کے پروگرامز میں دلچسپ رجحان نظر آتا ہے، یعنی یہ قرض پروگرام طویل المدتی اور بڑے ہوتے جاتے ہیں، طوالت سے ہماری مراد پے آؤٹ پیریڈ کا بڑھنا ہے۔ مثال کے طور پر 1958ء سے  1977ء تک تمام پروگرام ایک سال کی مدت کے لیے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس عرصے کے تمام پروگرام بیل آؤٹ یا سٹینڈ بائی پروگرام بھی تھے اور ان کی تعداد ساٹھ تھی۔

واضح رہے کہ بیل آؤٹ پیکج سے مراد وہ مالی معاونت ہے جو آئی ایم ایف ایک ایسی معیشت کو دیتا ہے جو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہو۔ اسی طرح سٹینڈ بائی پروگرام سے مراد وہ معاشی امداد ہے جو پہلے سے طے کی گئی حد سے تجاوز نہیں کرتی اور کوئی معیشت اسے ضرورت پڑنے پر ہی حاصل کرتی ہے۔ اس کے برعکس ‘قرض’ ایک مخصوص رقم ہوتی ہے جو قرض لینے والا یقینی طور پر استعمال میں لاتا ہے۔

دیکھنے میں تو یہ چیز بہت اچھی لگتی ہے کہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے جو بدحال اور لڑکھڑاتی معیشتوں کو سہارا دیتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف ان رکن ممالک کو مالی مدد فراہم کرتا ہے جو اپنی بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں اور اس مدد کے بدلے ان ممالک کو آئی ایم ایف کی کچھ خاص شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے جس کا مقصد حکومتی مالیات  کو مستحکم اور دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوتا ہے، اگرچہ یہ شرائط قرض لینے والے ملک کی بھلائی کے لیے ہوتی ہیں مگر پھر یہ خوف ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ آئی ایم ایف دراصل نو آبادیاتی نظام کا معاون ادارہ ہے۔

پاکستان اکثر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ چیز قرض پروگرام کی طوالت کی ایک جزوی وجہ ہے۔ 1980ء سے  1995ء تک کے عرصے میں پاکستان سات آئی ایم ایف پروگرامز کا حصہ تھا جن میں ایک کے سوا تمام پروگرام ایک یا دو سال تک کے لیے تھے، 1997ء سے  2013ء تک کے عرصے میں پاکستان چھ آئی ایم ایف پروگرامز کا حصہ رہا جن میں ایک کے سوا باقی تمام تقریباً تین سال طویل تھے، ان میں میں آخری پروگرام  پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 6.4 ارب ڈالر کا لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: حکومت کے ذمہ واجب الادا مقامی قرض 241 کھرب 10 ارب ہو گیا

اگست 2018ء میں عمران خان نے حکومت بنانے کے بعد چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، ایسا متحدہ عرب امارات، چین اور سعودی عرب سے قرض لینے کے باوجود کرنا پڑا اور اس کی وجہ پہاڑ جیسے معاشی مسائل تھے۔

تو اس دفعہ آئی ایم ایف کے مطالبات  کیا تھے؟ اس حوالے سے وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے قرض کے عوض پاکستان سے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے، ٹیکس نیٹ بڑھانے، سرکاری اداروں کا خسارہ اور گردشی قرضے میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی اس وقت کی سربراہ کرسٹینا لیگارڈ کی ملاقاتوں کی خوب تشہیر ہوئی اور توقعات کے مطابق اس پر اپوزیشن کی جانب سے بھرپور تنقید بھی سامنے آئی تاہم وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کی سربراہ کو یقین دہانی کروائی کہ ان کی حکومت اداروں میں اصلاحات لائے گی جس پر آئی آئی ایم ایف کی سربراہ نے پاکستان کی مدد پر آمادگی ظاہر کی۔

مگر فکرمندی کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو وعدے کے برعکس چھ ارب ڈالر میں سے اب تک صرف ایک ارب ڈالر فراہم کیے ہیں جب کہ اس کی شرائط پر عمل درآمد کی کوششیں تاحال جاری ہیں، آئی ایم ایف پروگرام گزشتہ دس ماہ سے تعطل کا شکار ہے، اس کے ساتھ حکومت بھی سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جو کہ آئی ایم ایف کی ایک بنیادی شرط تھی۔

غیرملکی قرض میں اضافہ   

گزشتہ مالی سال 2019-20ء کے ابتدائی پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے مقابلہ میں رواں مالی سال 2020-21ء کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ملکی قرضوں میں 4.5 ارب ڈالر یعنی 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔  وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے اب تک کے عرصے میں پاکستان 23.6 ارب ڈالر کا بیرونی قرض لے چکا ہے۔

پرافٹ سے گفتگو کرتے میں ماہر معاشیات ڈاکٹر آئمہ مہدی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قرضوں کے حجم میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جولائی تا نومبر 2020ء تک کے عرصے میں قرضوں میں 45 فیصد کا اضافہ پریشان کن ہے اور ایسا پی ٹی آئی کے دور میں ہوا ہے جس کا دعویٰ تھا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکال لے گی۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر

ڈاکٹر آئمہ مہدی کے بقول ”اہم بات یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے امریکہ جیسی بڑی معیشتوں کے قرضوں  میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، پاکستان کو رواں برس سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر واپس بھی کرنے تھے جس کی معیشت عالمی سطح پر تیل کی طلب میں کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ قرض سے متعلق اعدادوشمار واقعی پریشان کن ہیں اور معاشی نمو پر اس کا خاصا دبائو پڑ رہا ہے، دوسری جانب کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا تسلسل بھی ترسیلات زر کی آمد اور پاکستانیوں کی جانب سے بیرون سفر نہ کرنے کی وجہ سے ہے، تجارتی فرنٹ پر برآمدات میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے مگر درآمدات میں اس کی نسبت زیادہ تیزرفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا بیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کے توازن کی وجہ سے کرنسی پر پڑنے والے بوجھ کی وجہ سے معاشی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

“یہ ایسی چیز ہے جس کا پاکستان اس وقت متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا کی معاشی حالت بھی پتلی ہے، لہٰذا ممکن ہے پاکستان کو عربوں کی جانب سے ملنے والی معاونت سے ہاتھ دھونے پڑیں اور آئی ایم ایف کی طرف سے سخت شرائط کا بھی سامنا کرنا پڑے، ایسے میں صرف چین سے ملنے والی مالی امداد اور سی پیک کی وجہ سے پیسے کی آمد پر اکتفا کرنا ملک کو گروی رکھوانے کے مترادف ہے، یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے اس وقت تک جب تک وزیراعظم عمران خان منی لانڈرنگ میں ملوث افراد سے پیسہ نہیں نکلوا لیتے۔”

یہ بھی پڑھیے: قرض پروگرام دوبارہ شروع کرنے کیلئے پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں ناکام

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کے نیوکلاسیکل معاشی ماہرین بجٹ خسارے کے حل اور حکومت کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی کے لیے قرض کی حمایت کرتے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ اور چین سمیت دنیا کی دس بڑی معیشتیں دنیا میں سب سے زیادہ قرض دار ممالک بھی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تیسری دنیا کا قرض ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، یہی قرض ان ممالک میں غربت اور کرپشن کی ایک بہت بڑی وجہ بھی ہے، پاکستان کا قرض کا مسئلہ سنگین ہے اور ملک قرض کے جال میں پھنسا ہوا ہے، نئی آنے والے حکومت پچھلے قرضوں کی واپسی کے لیے مزید قرض لیتی ہیں جس کا نتیجہ شرح سود میں اضافے کی صورت نکلتا ہے۔

جب 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو پاکستان پہلے ہی قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا تھا اور اس میں سے کچھ کی واپسی کا وقت بھی تھا، اس وقت ملک ادائیگیوں میں 40 ارب ڈالر کے خسارے سمیت دیگر معاشی مشکلات، سرمائے کا انخلا، منی لانڈرنگ اور تجارتی خسارے کا سامنا کر رہا تھا، مسلم لیگ (ن) قرض کی قانونی حد سے پہلے ہی 60 فیصد تجاوز کر چکی تھی۔

ڈاکٹر قیس اسلم کا بقول ”تحریک انصاف حکومت نے معاشی حقائق کا ادراک دیر سے کیا۔ اس حکومت نے پرانے قرضوں کی واپسی کے لیے چین، ترکی، سعودی عرب اور آئی ایم ایف سے سرمایہ حاصل کیا، اسے بہت سے معاشی مسائل اور خارجہ پالیسی کی رکاوٹوں کا سامنا تھا، مقامی قرض غیرملکی قرض کی نسبت بہت زیادہ تھا پھر اس صورت حال کے دوران ہی کورونا کی وبا پھوٹ پڑی جس کی وجہ سے معیشت منفی 0.5 فیصد کی سطح پر چلی گئی۔”

ڈاکٹر آئمہ مہدی

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ادائیگوں کے توازن کے لیے دائیں، بائیں اور ہر جگہ سے قرض لیا اور غیرموافق آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بن گئی، اس نے ڈالر کو آزاد کردیا جو 168 روپے کی سطح تک گیا جس کی وجہ سے ملکی قرضوں کی صورت حال مزید خراب ہوئی، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہو گئے اور اس کی جانب سے سٹیٹ بنک آف پاکستان میں رکھوائے گئے تین ارب ڈالر واپس کرنا پڑے جس میں سے دو ارب روپے چین سے مزید قرض لے کر واپس کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق اس وقت معیشت کی شرح نمو منفی 0.5 اور منفی  1.5 فیصد کے درمیان ہے اور 20 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ باقی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 20.3 ارب ڈالر پر ہیں، جی ڈی پی کا 63 فیصد سروسز سیکٹر سے آتا ہے جس کا بڑا حصہ برآمد نہیں کیا جا سکتا بلکہ الٹا اس کا انحصار مہنگی درآمدات پر ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ 2020ء میں کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان سروسز سیکٹر کو ہوا، قرضوں کی ادائیگی کا بجٹ میں حصہ 40 سے بڑھ کر45 فیصد ہو گیا جس کی وجہ سے مالیاتی اور ادائیگیوں کے خسارے میں مزید اضافہ ہوا اور ملک کی موجودہ معاشی حالت کافی پتلی ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ بھی کچھ مسائل ہیں، سرکاری اخراجات، نااہلی، خسارہ زدہ بڑے سرکاری اداروں کی فنڈنگ کی وجہ سے پاکستان کے مقامی اور بیرونی قرض میں پر مزید دباؤ آیا۔مختصر یہ کہ ماضی کا قرض حال کی نااہلی بن گیا ہے اور مخصوص معاشی پالیسیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے قرض کی صورت حال خراب تر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم کے نزدیک اس  مسئلے کا حل یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور امیروں پر ٹیکس بڑھائے، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو سہولت دینے کے ساتھ بین الاقوامی قرض خواہوں کی مدد سے  شروع کیے گئے کاموں کے ذریعے معیشت پر سے قرضوں کا بوجھ کم کرنا شروع کرے۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر ندیم الحق، جو کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس ( پی آئی ڈی ای ) کے وائس چانسلر ہیں، نے پرافٹ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو بھیک مانگنا بند کر دینا چاہیے کیونکہ اس کے بجائے اصلاحات اور بہتر پالیسی اپنا کر زیادہ پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر اس میں وقت اور توانائی صرف ہوتی ہے۔

”مانگنا آسان ہے کیونکہ حکومت کو کوئی سخت فیصلہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ الٹا اسے کئی مطالبے تھما دیے جاتے ہیں۔‘‘

قرضوں کے ناکام دفاع کی کوشش

18 دسمبر 2020ء کو اقتصادی امور ڈویژن نے میڈیا  کی ان رپورٹس کی تردید کی جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ پانچ ماہ میں ملکی قرض میں 45 فیصد اضافہ ہو گیا ہے، اس ڈویژن نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران محض ساڑھے چار ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا جبکہ بجٹ تخمینہ 14.37 ارب ڈالر تھا اور اس عرصے میں حکومت نے دو ارب 90 کروڑ ڈالر کا بیرونی قرض واپس بھی کیا۔

اقتصادی امور ڈویژن سے جاری بیان میں کہا گیا کہ  موجودہ حکومت کے دور میں مجموعی بیرونی قرض 26.6 ارب ڈالر تھا جو 23.4 ارب ڈالر قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال ہوا لہٰذا خالص قرض کا حجم 3.2 ارب ڈالر رہا۔ مگر اپوزیشن اور معاشی ماہرین حکومت کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔

پراٖفٹ سے بات چیت میں مسلم لیگ (ن) کی ایم پی اے حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ ملکی قرضے اس قدر تیزی سے بڑھنے پر انہیں کوئی حیرانی نہیں، ان کی جماعت عوام کو اس بارے میں ایک سال سے خبردار کر رہی تھی اور اب مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں غیرملکی قرضوں میں 45 فیصد اضافے کی خبروں نے ہمارے شکوک و شبہات کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔

حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی انہیں اس بارے پتہ چلا تو وہ جان گئیں کہ حکومت قرض کے اعدادوشمار میں ہیرپھیر کرے گی یا ذمہ داری سابق حکومت کے سر ڈال دے گی اور مجھے مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ حکومت نے دونوں کام کیے۔  مسلم لیگ (ن) پر قرض کے حوالے سے تنقید کرنے والے موجودہ وزیراعظم اب کیا کہیں گے جب ان کی اپنی حکومت نے کہیں زیادہ قرض حاصل کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پانچ ماہ میں پی ٹی آئی حکومت نے کتنے ارب ڈالر قرضہ لیا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس بات کو ایک لمحے کیلئے تسلیم  کر بھی لیا جائے کہ پانچ ماہ میں ملکی قرضوں میں 45 فیصد اضافے کی باتیں درست نہیں تو بھی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اب تک 23.6 ارب ڈالر کا بیرونی قرض لے چکی ہے جو ملک کے موجودہ بیرونی قرض کا ایک تہائی بنتا ہے اور یہ قرض صرف ڈھائی سال کے عرصے میں لیا گیا ہے۔

22 دسمبر 2020ء کو وزیر منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات اسدعمر نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے جاری ایک ٹیبل ٹویٹ کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پانچ سالوں میں پہلی مرتبہ سرپلس ہوا ہے، اپنی ٹویٹ میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو ورثے میں ملنے والی تباہی کو دیکھیے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہر ماہ بلندی کی طرف جاتا رہا جس نے پاکستان کو قرضوں کے جنجال میں الجھا دیا، اس تبدیلی کو بھی دیکھیے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لے کر آئی، کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو گیا۔

اسد عمر کی ٹویٹ کے جواب میں پرافٹ کے کالمسٹ عمار ایچ خان، جو ماضی میں پاکستان میں کمرشل بنکنگ سیکٹر اور سرمایہ مارکیٹ میں بہت سے مالیاتی اداروں میں کام کر چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ ’’جی ڈی پی گروتھ کی تصویر ایک آئینے کی مانند ہے، کرنٹ اکاؤنٹ کے سرپلس ہونے کی وجہ سے فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے، یہ نہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کوئی اچھی چیز ہے مگر کسی ایک معاشی اشاریے کو لے کر خود تعریفی میں الجھنا اور باقی اشاریوں کو نظرانداز کر دینا اچی بات نہیں۔”

اعدادوشمار کا کھیل 

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کی معاشی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ طویل عرصے کے بعد موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بڑی صنعتوں کی شرح نمو پانچ فیصد رہی ہے۔ سیمنٹ، کھاد اور آٹوموبیل کے شعبے کی پیداوار بالخصوص بڑھی ہے، برآمدات بھی بتدریج بڑھ رہی ہیں اور روپیہ بھی مستحکم ہو رہا ہے جبکہ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ؕدالر سے تجاوز کر گئے ہیں، اس کے علاوہ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن بھی چار فیصد بڑھ گئی ہے۔

حفیظ شیخ نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف کا وفد، جو پاکستان کے لئے پروگرام کی پہلی قسط کا انتظام کرنے کے بعد گذشتہ ایک سال سے لاپتہ ہے، اب بالآخر پاکستان واپس آ رہا ہے۔ شاید حفیظ شیخ، جو خود آئی ایم ایف کے ایک اعلی عہدے دار رہ چکے ہیں، کا مطلب تھا کہ پاکستان کی معیشت میں اس قدر بہتری آٓئی ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں کے وفود قرضہ لینے کے لئے وزارت خزانہ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر کھڑے ہیں۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کہہ چکا ہے کہ  پاکستان کے نئے پروگرام میں اہداف کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں رہی کیونکہ کوویڈ-19 نے ان مقاصد کو حاصل کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ نیز ایک اہم سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر پاکستان کی معیشت کی صورت حال اتنی اچھی ہے تو پھر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے پروگرام کی ضرورت کیوں ہے؟

یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو 800 ملین ڈالر قرضوں کی واپسی پر ریلیف مل گیا

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت قرضوں اور بیرونی امداد کی مدد سے پروان چڑھی ہے مگر اب صورت حال بدل گئی ہے، امریکا اپنی خدمت کے عوض پاکستان پر اربوں ڈالر نچھاور نہیں کر رہا، بدقسمتی سے وہ وقت بھی گزر گیا ہے جب پاکستان کمیونزم مخالف سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں کا حصہ تھا۔

وزیراعظم عمران خان کی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے ایک رکن کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ  ”بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے آج تک غریب کے فائدے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ 1970ء سے  2020ء تک کی پانچ دہائیوں میں معیشت کی ترقی کی اوسط رفتار 7.2 سے  2.3 فیصد کی سطح پر آ گئی۔”

عمار ایچ خان کے مطابق ”جنوبی ایشیا میں 1980ء سے لے کر اب تک سری لنکا کی فی کس آمدنی سب سے زیادہ ری ہے، اس میں 14 گنا اضافہ ہو چکا ہے، بنگلہ دیش  جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا اور اس کی فی کس آمدنی 3.8 گنا بڑھ چکی ہے حالانکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کیلئے ہمارے نام نہاد مشیر اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اسے آدھی سے زیادہ غریب آبادی کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ بھارت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جس کی فی کس آمدنی 7.7 گنا بڑھ چکی ہے، دوسرے الفاظ میں 1980ء کے بعد سے پاکستان کی فی کس آمدن جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔”

 اس عرصے کے دوران پاکستان کو نہایت ناموزوں معاشی حالات کا سامنا رہا ایسے میں بہت سے وہ ممالک جو کبھی ہم سے بہت پیچھے تھے، اب بہت آگے نکل چکے ہیں۔

جب تک ہم کچھ بنیادی حقائق کو جان نہیں لیتے اور مسائل کو ٹھیک نہیں کر لیتے تب تک پاکستان کے عوام غربت کی چکی میں پستے رہیں گے، اگر ہم غیرترقیاتی اخراجات، طاقتور لوگوں کے خرچے، جس میں بیوروکریسی بھی شامل ہے، کو دیکھیں تو وہ اتنے بلند اور غیرمنصفانہ ہیں کہ موجودہ معاشی حالت میں پاکستان اس کا بوجھ زیادہ دیر نہیں اٹھا سکے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here