اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت آٹو کمپنیاں سو فیصد پرزے مقامی طور پر خریدنے کی پابند ہوں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس گزشتہ روز کمیٹی کے چئیرمین فیض اللہ کموکہ کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا، اجلاس میں آٹو پالیسی کے بارے میں وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔
کئی ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کار ساز کمپنیاں ڈالر کی قدر میں اضافہ کو گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ سے جوڑ رہی ہے یہ طرز عمل درست نہیں، ڈالر کی قدر میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آٹو کمپنیوں کی جانب سے پیداوار میں کمی کی تحقیقات کا فیصلہ
دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کاریں مہنگی کیوں ہیں؟
مستقبل قریب میں پاکستانیوں کا بجلی سے چلنے والی کاریں چلانے کا امکان کیوں نہیں؟
آٹو انڈسٹری کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ کمپنیوں نے پچھلے چھ ماہ میں 6.3 ارب روپے کے ٹیکس کے بدلے میں 140 ملین کا منافع حاصل کیا ہے۔
انڈس موٹرز کے عہدیدار بابر خان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ کمپنیوں پر تنقید ہو رہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ آٹو انڈسٹری پر نافذ ٹیکس اور ڈیوٹی کی ساخت پر نظرثانی کی جائے۔ تین ماہ تک صنعتیں بند رہیں، آٹو کی صنعت سے کسی کو نہیں نکالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت الیکٹرانک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے لیکن یہ گاڑیاں صرف امراء خرید سکتے ہیں، اس وقت ہائبرڈ گاڑیاں عمومی طور پر اچھی ہیں۔ گذشتہ چھ ماہ میں ٹویوٹا نے 14 ہزار گاڑیاں فروخت کی ہیں، یارس جدید جنریشن کار ہے۔
انڈس موٹرز کے عہدیدار نے کہا کہ کوئی بھی ملک استعمال شدہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، بیٹری والی گاڑیوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، بھارت اور تھائی لینڈ میں بھی ہائبرڈ اور الیکٹرک دونوں گاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
قبل ازیں وزارت صنعت و پیداوار کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت آٹو کمپنیاں سو فیصد پرزے مقامی طور پر خریدنے کی پابند ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ 04۔2003ء میں آدم موٹرز کی جانب سے مقامی طور پر کاریں تیار کرنے کا کام شروع ہوا تھا تاہم اس زمانے میں وٹز کی قیمت ساڑھے تین لاکھ جبکہ پاکستانی کار کی قیمت دو لاکھ 75 ہزار روپے تھی جس کی وجہ سے وہ پلانٹ بند ہو گیا، لوکل برانڈ موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔