پاکستان میں موسم سرما کا دورانیہ کم ہوتا ہے اور فروری کے آخر اور مارچ کے آغاز کے دنوں پر مشتمل چند ہفتے ملک میں موسم بہار کے ہوتے ہیں مگر بہار سورج کے اپنی آب و تاب سے چمکنے اور گرمیوں کی منادی سے پہلے صرف پھول، چھٹیاں اور فراغت کے چند دن ہی نہیں لاتی بلکہ یہ اپنے ساتھ لان کا رنگا رنگ سیزن بھی لاتی ہے۔
2016ء میں خواتین کے کپڑوں کے مشہور برانڈ سیفائر کے ایک سٹور میں لگی سیل کے موقع پر ایک سوٹ کو لے کر دو خواتین کے درمیان لڑائی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، امریکہ میں اس طرح کی میگا سیلز اور بلیک فرائی ڈے جیسے مواقع پر اس قسم کی ویڈیوز کا وائرل ہونا معمول کی بات ہے، پاکستان میں عموماََ ایسے مواقع شادیوں میں کھانا کھلنے کے وقت یا پھر کسی سیاسی رہنما کی الگرہ کا کیک کاٹنے کی تقریب میں نظر آتے ہیں، مگر ایک سٹور میں، جس کے خریداروں کا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہے، میں اس قسم کی دھینگا مشتی پاکستانیوں کیلئے ایک نئی بات تھی۔
اس واقعہ نے پاکستانیوں کو لان کی کاروباری حیثییت کا احساس دلا دیا، لان پاکستان میں تقسیمِ برصغیر سے پہلے کی ہے، یہ موسم کے لحاظ سے بہترین پہناوا ہے۔ اگرچہ ٹیکسٹائل مینوفیکچورز جیسے کہ گُل احمد تو 1950ء کی دہائی سے مارکیٹ میں موجود ہیں مگر برانڈڈ لان کی کلیکشن کی سال بھر دستیابی اور اس کی خریداری کا پاکستانیوں کی لباس کی شاپنگ کا حصہ بننا بس دو دہائیاں پرانی بات ہے۔
لان اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ ایک صدی گزرنے کے باوجود پاکستان کی نمایاں پراڈکٹ کا درجہ برقرار رکھے ہوئے ہے، پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں لان کے حوالے سے پاگل پن کی حد تک پسندیدگی پائی جاتی ہے تو وہ ہمارا ہمسایہ بھارت ہے۔ ایک جیسے موسم اور طرز لباس کی بدولت بھارت پاکستانی لان کی بڑی برآمدی منڈی بن سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان مشرقی ہمسائے کو لان برآمد کرتا رہا ہے، 2017ء تک بھارت میں عالی شان پاکستان میلے میں پاکستانی ملبوسات اور برانڈز کی نمائش ہوتی تھی اور اکثر پاکستانی ملبوسات کی یہ نمائش بھارتی ماڈلز کرتی تھیں، اس بات سے قطع نظر کہ پڑوسی ملک کی مارکیٹ پاکستانی برانڈز کیلئے کس قدر وسیع امکانات رکھتی ہے، اور اس کی پاکستانی برانڈز کو چنداں پروا نہیں ہے، پھر بھی بھارت میں پاکستانی لان کی بے حد مانگ ہے۔
لان ہی کیوں؟
غالباً پاکستان اور بھارت ہی کرہ ارض پر ایسے دو ممالک ہیں جہاں یہ کپڑا بے حد مقبول ہے، اگرچہ یہ کپڑا پہلی مرتبہ فرانس کے شمالی شہر لون (Laon) میں تیار کیا گیا تھا اور اسی شہر کی مناسبت سے ہی اسے یہ نام ملا۔ یہ بالکل ہلکا کپڑا تھا جو خواتین کے سکرٹس، رومال اور بچوں کے لباس بنانے کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز پہ جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج اپنے عروج پر تھا تو انگریز ہندوستان میں بننے والی ہر چیز کو پسند کرتے تھے، جو چیزیں انہیں بہت زیادہ پسند آئیں ان میں مغلوں کی جانب سے زیب تن کیے جانے والے بلاک پرنٹنگ اور کڑھائی والے ملبوسات بھی تھے جنییں یورپی باشندوں نے چھینٹ (chintz) کا نام دیا۔
چونکہ ہندوستان اور خاص طور پر پنجاب میں کپاس کافی زیادہ کاشت ہوتی تھی لہٰذا انگریزوں نے یہاں لان کی پیداوار کا فیصلہ کیا، برصغیر کے موسموں کے مطابق یہ ایک بہترین کپڑا تھا جو ہلکا، ہوادار اور بنائی میں بھی خوب صورت ہوتا تھا۔ دیگر کپڑوں کی طرح لان کو بھی ہر رنگ میں رنگا جا سکتا ہے تاہم یہ بعد میں پتہ چلا کہ اسے صرف رنگ ہی نہیں بلکہ اس پر کڑھائی بھی کر سکتے ہیں، یوں انگریزوں کے چھینٹ کے شوق سے بات آج کل کی شوخ رنگوں اور ایک سے ایک ڈیزائن والی لان تک آن پہنچی۔
1947ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو ہندوستان میں لگائے گئے لان کے زیادہ تر پیداواری یونٹس پاکستانی علاقے میں آ گئے، یہی وجہ تھی کہ جب تقسیم کے فوری بعد کوئی پاکستانی ہندوستان جاتا تو زیادہ تر لوگ اس سے یہی پوچھتے کہ کیا وہ انڈیا کو لان بیچنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ تقسیم کے پہلے دو سالوں میں پاکستانی لان بھارت میں آزادی سے پہلے کی طرح ہی فروخت ہوتی رہی۔
لیکن پھر پاکستان کی جانب سے بھارت اور برطانیہ کی طرح اپنی کرنسی میں کمی نہ کرنے کا تباہ کن فیصلہ کر لیا گیا جس کی وجہ سے ہوا یہ کہ پاکستانی مصنوعات اچانک بہت مہنگی ہو کر بھارتی مارکیٹ میں مسابقت میں پیچھے رہ گئیں، 1965ء کی جنگ کے بعد دوطرفہ تجارتی بندش کے بعد بھارت میں پاکستانی لان کی مارکیٹ ختم ہو کر رہ گئی۔
اس کے بعد اگرچہ بھارتی عوام تو لان کو بھول گئے مگر پاکستان میں یہ کپڑا بہرحال بنتا رہا اور اس کی مانگ بھی بڑھتی رہی، 1953ء میں قائم ہونے والی گل احمد ٹیکسٹائل نے چمکدار رنگ والی لان تیار کرکے ہول سیل مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دی، دیکھا دیکھی دوسری ٹیکسٹائل ملز نے بھی لان کے کاروبار کے میدان میں قدم رکھ دیا اور ایک طویل عرصے سے یہ کاروبار اسی طرح پھلتا پھولتا رہا، اب تو برانڈنگ کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور کچھ لان بنانے والے اچھی کوالٹی کی وجہ سے دوسروں سے بہتر نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ٹیکسٹائل برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹ آرڈرز پورے کرنا مشکل
کپاس کی پیدوار خطرناک حد تک کم، زراعت، ٹیکسٹائل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
اس سب کے باوجود لان ہمیشہ شاپنگ سنٹرز اور کپڑوں کی دکانوں سے ہی خریدی جاتی تھی اور آج کی طرح اس کی کوئی کلیکشن متعارف نہیں کرائی جاتی تھی۔ اس کی فروخت کیلئے ماڈلزکا سہارا لیا جاتا تھا اور نا بڑے بڑے بل بورڈز پر اس کی تشہیر کی جاتی تھی، لان بنانے والے اسے بوتیکس کو بیچ دیا کرتے تھے جو اسے گل احمد، ستارہ، سپنا، جبلی لان اور دیگر ناموں کے برانڈز کے تحت فروخت کرتے تھے، ایسا 1990ء تک چلتا رہا، اس کے بعد ملک میں سماجی تبدیلی کا عمل شروع ہوا، خواتین کی بڑی تعداد گھروں سے باہر افرادی قوت کا حصہ بننے لگی، یوں جہاں انہیں کام کی جگہوں پر جانے کیلئے زیادہ کپڑے خریدنے کی ضرورت پڑی وہاں ان کی معیشت بھی بہتر ہو گئی۔
پاکستانی خواتین پہلے سے زیادہ پیسہ کما رہی ہیں، ان کے پاس خرچ کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ رقم موجود ہوتی ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا تک رسائی کی وجہ سے مہنگی اور سستی مصنوعات کا فرق بآسانی کر سکتی ہیں۔ پاکستانی خواتین کی بہتر ہوتی معاشی حالت کے حوالے سے اعدادوشمار کافی حوصلہ افزا ہیں، 1998ء میں ملکی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 16 فیصد تھا جو 2015ء میں بلند ترین یعنی 25 فیصد ہو گیا، تاہم 2018ء تک کچھ کم ہو کر 22.8 فیصد پر آ گیا، اس کا مطلب ہے کہ اب لاکھوں کی تعداد میں خواتین کام کر رہی ہیں۔
پراٖفٹ اردو کی جانب سے ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے تجزیے کے مطابق ملک کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد 1998ء میں 82 لاکھ تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 2 کروڑ 37 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی افرادی قوت میں خواتین کے تناسب میں ہر سال 4.9 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا، اس کے مقابلے میں آبادی بڑھنے کا تناسب 2.4 فیصد سالانہ رہا۔ یعنی ملک میں گھروں سے باہر کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں آبادی کی نسبت دو گنا اضافہ ہوا۔
وہ تمام خواتین جو اب ورک فورس کا حصہ ہیں ان کی قوت خرید پہلے سے بہتر ہے، گھر کیلئے خریداری کے حوالے سے خواتین کے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی طریقہ ہوتا ہے مگر اب اپنی ذاتی کمائی کی بدولت وہ ناصرف گھر بلکہ اپنے لیے خریداری کرنے کے حوالے سے زیادہ بااختیار ہو گئی ہیں جس میں لان بھی شامل ہے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر ڈیزائنرز بھی میدان میں کود پڑے ہیں، ان میں کچھ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، کچھ کسی لان بنانے والی کمپنی کے لیے خدمات فراہم کر رہے ہیں، اب لان بنانے والی کمپنیاں ناصرف ڈیزائن اور چمکدار رنگوں والی لان بنا رہی ہیں بلکہ سلے ہوئے کپڑے بھی فروخت کر رہی ہیں جو فیشن کے بدلتے رجحان کے مطابق ہوتے ہیں، ان کپڑوں کی قیمتیں بھی ہوش اڑا دینے والی ہوتی ہیں۔
لان کے کٹ اور ڈیزائن فیشن کے حساب سے رکھے جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنی پسند کے برانڈز سے خریدتے ہیں۔ اب مارکیٹ میں کچھ نئے برانڈز بھی آ گئے ہیں جس نے ‘لان مانیا’ یعنی لان کے خبط کو جنم دیا ہے، یہیں سے بھارت کے حوالے سے بات کا آغاز ہوتا ہے۔
بھارت اور پاکستانی لان کی کہانی
سنہ 2000ء کی دہائی میں کارگل جنگ اور پاکستان میں فوجی بغاوت کے باوجود پاک بھارت ثقافتی تعلقات عروج پر تھے، اس کا کریڈٹ کیبل ٹیلی ویژن کو بھی جاتا ہے، پاکستانی ڈرامے بھارت میں اور وہاں کے ڈرامے یہاں دکھائے جا رہے تھے، دونوں ممالک کے فنکار بھی ایک دوسرے کے ہاں کام کر رہے تھے اور کرکٹ بھی کھیلی جا رہی تھی، پاکستانی اور بھارتی تاجروں کے پاس بھی ایک دوسرے کے ہاں اپنی اپنی مصنوعات کی تشہیر کا موقع تھا۔
اگرچہ پاکستان میں لان کا کاروبار خوب چل رہا تھا، مگر بھارتی متجسس ہی رہے۔ وہ پاکستانی ڈراموں میں اداکاراؤں کو لان پہنے ہوئے اور فیشن شوز میں پاکستانی ماڈلز کو اس کی نمائش کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ پھر چند پاکستانی برانڈز نے لان کی نمائش کیلئے اداکارہ کرینہ کپور جیسے بھارتی فلمی ستاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کر دیں، نتیجتاََ بھارت میں نظرانداز ہونے والی لان کی مانگ راتوں رات بڑھ گئی، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے وسط تک پاکستانی لان بھارتی فیشن مارکیٹ میں اپنی جگہ دوبارہ بنا کی تھی، تب سے اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگرچہ اب بھارتی خواتین پاکستانی لان کی عادی ہو چکی ہیں مگر دونوں ممالک کے تعلقات میں تعطل پیدا ہونے پر لان کا انڈین مارکیٹ میں پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔
بھارت کاٹن فائبر کی پیداوار والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، پاکستان اس کے قریب قریب بھی نہیں تاہم بھارت میں لان بنانے والے ماہر ڈیزائنرز اور کمپنیاں نہیں، اس کے باوجود پاکستان عالمی سطح پر لان کی مصنوعات بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے پاس ماہرین بھی ہیں جو اس کپڑے کو فیشن ایبل بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لہٰذا جب آپ دنیا میں کسی چیز کو بنانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں تو آپ کی بنائی جانے والی چیز کی برآمدی مانگ بھی ہوتی ہے چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔ چونکہ لان پاکستانی پراڈکٹ ہے تو پاکستان اسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو درآمد کرتا ہے۔ جب بھی دیگر ممالک کو پاکستانی لان برآمد کی جاتی ہے تو وہاں مقیم بھارتی بھی اسے خریدتے ہیں اور بعض اوقات اسے بھارت میں فروخت کرتے ہیں، وہ اس لیے کیونکہ لان بھارت میں مقبول ہے مگر پاکستانی برانڈز اسے وہاں کے ریٹیلرز کو فروخت نہیں کر سکتے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات اکثر اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کی تجارت بہت کم رہ گئی ہے، تازہ ترین اعدادوشمار 2019ء سے متعلق دستیاب ہیں، اس برس دونوں ملکوں کی تجارت کافی زیادہ تنزلی کا شکار ہوئی، 2018ء میں بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم 54 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا جو 2019ء میں محض چھ کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہ گیا، یعنی پاکستان کی بھارت کو برآمدات 88 فیصد تک کم ہو گئیں۔
اس صورت حال کا فائدہ صارفین یا ریٹیلرز کو نہیں بلکہ مڈل مین کو ہوا، پاکستانی لان زیادہ تر دبئی کے راستے بھارت پہنچتی ہے، دبئی میں موجود مڈل مین ہول سیلرز سے لان خرید کر آگے بھارتی تاجروں کو فروخت کر دیتے ہیں، کچھ پاکستانی برانڈز دبئی میں موجود ہونے کے باوجود لان براہ راست بھارتی تاجروں کو فروخت نہیں کرتے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں پاکستانی لان کی مارکیٹ چار سو کروڑ بھارتی روپے یا پانچ کروڑ 40 لاکھ امریکی ڈالر ہے اور ایسا دونون ممالک کے سفارتی تعلقات میں تنائو کے باوجود ہے، یہ واضح ثبوت ہے کہ دیگر ممالک، جہاں پاکستانی اور بھارتی شہری رہتے ہیں، کے علاوہ بھارت بھی پاکستانی لان کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
بھارت میں پاکستانی لان کے ریٹیلرز گفتگو میں پرافٹ اردو کو معلوم ہوا کہ بھارت میں پاکستانی لان کی کمی ہر وقت رہتی ہے اور ایسا خاص طور پر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی وجہ سے سپلائی چین میں تعطل کی وجہ سے ہوتا ہے تاہم مصنوعی قلت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
صارفین اکثر نئی مصنوعات اور مقبول ڈیزائن کا سٹاک ختم ہونے کی شکایت کرتے ہیں، ایک معروف پاکستانی لان برانڈ کے دبئی میں واقع دفتر میں کام کرنے والے ہمارے ایک ذریعہ نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے کچھ برانڈز مڈل مین کو تجارتی ٹرانزیکشنز کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

اس حوالے سے بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستانی کپڑوں کی آن لائن فروخت کے پلیٹ فارم ‘یور لباس’ کے شریک بانی اکرم خان کا پراٖفٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ”زیادہ تر برانڈز خصوصا ً بین الاقوامی سطح پر براہ راست فروخت کو ترجیح نہیں دیتے، ہم ان کی سیلز ٹیموں کو متعدد ای میلز بھیج چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایسی صورت حال میں سودے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مڈل مین ہمیشہ دستیاب ہوتے ہیں مگر یہ طریقہ غیرمنظم اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔”
برانڈز کی جانب سے اس طرزعمل کی وجہ سے اکرم خان نے 2014ء میں ‘یور لباس’ کی بنیاد رکھی، ایسا انہوں نے عالی شان پاکستان نمائش کی بندش اور بھارت میں پاکستانی لان کی مانگ کو دیکھتے ہوئے کیا۔ اگرچہ اکرم خان کے ‘یور لباس’ کا آغاز نئی دہلی سے ایک چھوٹے سے کاروبار کے طور پر ہوا مگر جلد ہی یہ ایک بین الاقوامی طور پر پہچانا جانے والا برانڈ بن گیا۔
پرافٹ اردو سے بات چیت کے دوران اکرم خان کا کہنا تھا کہ برانڈز کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، خاص طور پر جب آپ ایک ایسی مارکیٹ کا حصہ ہوں جس میں نقالوں کی جانب سے ہر وقت متبادل پروڈکٹ متعارف کرائے جانے کا خطرہ لاحق ہو جو خود کو اصلی پاکستانی برانڈ ظاہر کرکے لان فروخت کرتے ہیں۔
نقالوں کا کاروبار
ایک لمحے کیلئے پرانی گھڑیوں کی دکان ذہن میں لائیں، وہاں وہ گھڑیاں ملتی ہیں جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں مگر پھر بھی لوگ ان کیلئے بھاری رقم خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں، دراصل لوگ ان پرانی گھڑیوں کی نہیں بلکہ ان سے جڑی تاریخ کی قیمت ادا کر رہے ہوتے ہیں، مگر حد تو یہ ہے کہ انتہائی قیمتی گھڑیوں کی بھی نقل تیار ہو جاتی ہے، ایسا ہی لان کے ساتھ بھی ہے جس کی ایک، دو بلکہ تین تین قسم کی نقلیں بنا لی جاتی ہیں۔
ڈیزائنرز کئی مہینوں کی محنت کے بعد کوئی کلیکشن لانچ کرتے ہیں مگر نقل تیار کرنے والے بلا تاخیر اس کی صاف ستھری کاپی تیار کر لیتے ہیں، سرحد پار تو یہ چیز بہت عام ہے، بلکہ آپ کراچی کی گلف مارکیٹ جائیں تو وہاں بھی آپ کو لان کے تازہ ترین ڈیزائنز کی نقل بآسانی مل جائے گی۔ کسی بھی برانڈ کا نام لیں، قوی امکان ہے کہ ناصرف آپ کو اس کی نقل مل جائے گی بلکہ یہ نقل مختلف قیمتوں میں ملے گی، دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کو اصل سے کتنی ملتی جلتی نقل چاہیے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ڈیزائن اور میٹیریل لیک کر دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے برانڈز کو مالی طور پر نقصان ہو رہا ہے مگر بعض کا یہ موقف ہے کہ برانڈز خود ہی مارکیٹ میں اپنی کلیکشن کی ماسٹر کاپی، فرسٹ کاپی اور سیکنڈ کاپی جاری کر دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادی کمائی کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
’پاکستان نے برآمدات میں بھارت، بنگلہ دیش کو پیچھے چھوڑ دیا‘
فیصل آباد میں صنعتی سرگرمیاں تیز، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اڑھائی لاکھ ملازمین کی کمی
’ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمدی آرڈرز میں ریکارڈ اضافہ، روئی کی قلت، اربوں کی روئی درآمد کرنا پڑے گی‘
بھارت میں تو یہ چیز ایک قدم آگے بڑھ کر کی جاتی ہے، پاکستان میں تو نقل بنانے والے صرف برانڈز کے کاپی رائٹس چوری کرتے ہیں مگر بھارت میں نقل بنانے والے پاکستانی برانڈز کے ڈیزائن اور لوگو والی لان بھارتی کپڑے پر پرنٹ کرکے فروخت کر دیتے ہیں، ایسے میں وہ شخص جسے کپڑے کی زیادہ پہچان نہیں ہوتی اس کیلئے پاکستانی لان اور بھارتی پراڈکٹ میں فرق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ایک ماہر صارف اصل اور نقل کی پہچان بآسانی کر لیتا ہے کیونکہ سادہ کاٹن لان نہیں ہوتی اور یہی اصل بات ہے۔
بھارتی شہر سورت ریپلیکا انڈسٹری کا مرکز ہے، نقل لان کی فروخت میں رکاوٹ اس لیے نہیں ہے کیونکہ رجسٹرڈ کمپنیاں کھلے عام یہ نقلی لان فروخت کرتی ہیں۔ پہلی دفعہ آن لائن خریداری کرنے والا انجان کسٹمر ممکن ہے کہ نقل خرید لے کیونکہ اصل اور نقل بنانے والوں کی جانب سے ایک ہی جیسی تصویر لگائی جاتی ہے تاہم نقل کی قیمت اصل لان کی قیمت کے 20 سے 25 فیصد کے برابر ہوتی ہے، اس کا منفی اثر لان پر پڑتا ہے اور گاہک برانڈ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
بھارت میں ریپلیکا انڈسٹری کے حجم کا اندازہ اس ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں زارا حیات کے نام سے لان کا ایک برانڈ ہے۔ یہ ایک جعلی برانڈ ہے جس کی مصنوعات بھارت میں ہی تیار کی جاتی ہیں مگر یہ بھارتی اور بین الاقوامی گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے پاکستانی برانڈ ہونے کا تاثر دیتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں زارا حیات نام کا کوئی ڈیزائنر نہیں۔
زارا حیات کے مالک بھارتی ہیں، مصنوعات کی تشہیر کرنے والی ماڈلز پاکستانی ہیں نا بھارتی، ماڈلز کے شوٹ بھارت میں ہی ہوتے ہیں، ایک اور دلچسپ بات یہ کہ زارا حیات ڈاٹ کام اور فیشن سٹیشن ڈاٹ اِن نامی ویب سائٹس ایک ہی سرور سے چلائی جا رہی ہیں اور پیج ٹرانسپیرنسی کے مطابق زارا حیات کا فیس بک پیج بھی بھارت سے ہی چلایا جا رہا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھارت میں رہ کر خود کو پاکستانی برانڈ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اگر خود پاکستانی برانڈز بھارتی مارکیٹ میں کاروبار کرتے تو یہ ان کیلئے کس قدر فائدہ مند ہو سکتا تھا۔
پاکستانی برانڈز کا نقصان بھارتی ریٹیلرز کی جیت
اگرچہ پاکستانی برانڈز کو بھارت میں لان فروخت کرنے میں مشکلات درپیش ہیں مگر یہ بھی بدقسمتی ہے کہ یہ دنیا بھر میں اپنی مضبوط سپلائی چین قائم کرنے میں ناکام ہیں، خاص طور پر اُن ممالک میں جہاں برصغیر سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں رہائش پذیزہیں، اس ضمن میں ‘یور لباس’ جیسی ویب سائٹ آگے ہے لہٰذا اسے سیل کے معاملے میں بھی سبقت حاصل ہے۔
اس حوالے سے اکرم خان کہتے ہیں کہ ’’ہم 2014ء سے کام کر رہے ہیں اور بھارت میں اصلی پاکستانی لان کے سوٹ فروخت کرنے والی سب سے پہلی ویب سائٹ ہیں، ایمازون جیسی مارکیٹس پر لان کے سوٹون کی قیمت بہت زیادہ ہے، ‘ ہم متعدد برانڈز کے سوٹ باسہولت انداز، مفت شپنگ اور آسان واپسی کے طریقہ کار کے تحت فروخت کرتے ہیں، دوسرا یہ کہ برانڈز سے براہ راست خریدنا قابل عمل آپشن نہیں ہے، ممکن ہے کہ شپمنٹ کسٹمز پر پھنس جائے یا بہت زیادہ تاخیر سے پہنچے، عام حالات میں بھی برانڈز کی ڈلیوری مقامی فروخت کنندہ کی نسبت دیر سے پہنچتی ہے، ہمارے تقریباً 35 فیصد خریدار وہ ہیں جو ہم سے بار بار خریداری کرتے ہیں اور یہی ہمارا ایک مضبوط پوائنٹ ہے۔‘‘
اگرچہ زیادہ تر پاکستانی برانڈز نے بیرون ملک شپنگ کا آغاز کر دیا ہے مگر وہ اکثرغیرملکی آرڈرز منسوخ کر دیتے ہیں جس کی وجہ تبدیلی اور واپسی کے معاملات میں مشکلات ہیں، اس کی وجہ سے بعض اوقات گاہک تھرڈ پارٹی ریٹیلر جیسا کہ ‘یور لباس ‘ سے خریداری کرنے کو باسہولت سمجھتا ہے اور اس کے عوض زیادہ پیسے دینے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے پاکستانی لان کی فروخت سارا سال اتار چڑھاؤ کا شکار رہے گی، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی برانڈز عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو بڑھائیں اور اپنی آن لائن موجودگی کو بہتر بنائیں تاکہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ گاہکوں تک پہنچا جا سکے۔