اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موجود زرعی ڈھانچہ اور اس میں موجود خامیوں کو ختم کرنا ہو گا تاکہ زرعی شعبے کیلئے ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی ترتیب دی جا سکے اور جدید سائنسی بنیادوں پر زراعت میں درپیش خامیوں کا حل تلاش کیا جا سکے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک نے چیئرمین کمیٹی شیر علی ارباب کی قیادت میں قومی زرعی تحقیقاتی مرکز اسلام آباد کا دورہ کیا۔ دورے کا مقصد سی پیک میں زرعی سیکٹر کی شمولیت کے بعد اس میں ممکنہ باہمی تعاون اور زرعی تکنیکی معاونت کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے کے سلسلہ میں ضروری آگہی حاصل کرنا تھا۔
چیئرمین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل محمد عظیم خان نے پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کو اس ضمن میں تفصیل سے آئندہ کا لائحہ عمل اور امکانات کے حوالہ سے آگاہ کیا۔
اس میٹنگ کا مقصد زراعت کے شعبہ کو سی پیک کا ایک اہم حصہ بنانا تھا اور پی اے آر سی کی زرعی سرگرمیوں کے ذریعے پاک چین زرعی تعاون اور تکنیکی مدد کے حوالے سے نئے مواقع تلاش کرنا تھا۔
زرعی تحقیقاتی مرکز میں میٹنگ کے دوران ممبران نے زرعی شعبہ کے مختلف پہلوں اور پاکستان کو اس میدان میں درپیش مسائل کے حوالہ سے متعدد سوالات کئے۔
چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر محمد عظیم خان نے زرعی مرکز میں مختلف تحقیقی کاموں، ان کی نوعیت اور پیشہ وارانہ استعداد کار کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کو آگاہ کیا۔
ڈاکٹر عظیم خان نے مشترکہ ورکنگ گروپس، سی پیک کے راستوں پر مختلف ایگرو ماحولیات میں زرعی اجناس اور سی ایم ای سی چین کے ذریعے جدید پاکستان کاٹن فارم پراجیکٹ کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کو آگاہ کیا۔
انہوں نے بہتر زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے کپاس کے بحران کو حل کئے جانے کے بارے میں زور دیا جو کہ واٹر سیونگ کاٹن فارمز کی ترقی اور اس کی کاشت کے علاقہ کو بڑھانے کے ذریعے ممکن ہے۔
ڈاکٹر عظیم خان نے مزید بتایا کہ سی پیک کے تحت 10 سال کے ترقیاتی اہداف کا اشتراک کرتے ہوئے ہمارا مقصد پاکستان کو روئی کے درآمدی ملک سے کپاس برآمد کرنے والے ملک میں تبدیل کرنا اور ڈیڑھ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت کرنا ہے۔ موجودہ باغات کی تزئین و آرائش کے علاوہ نئی اقسام کا تعارف، فصلوں کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنا، ویلیو چین میں بہتری اور دیہی صنعتوں کی ترقی ہماری بڑی مجوزہ ترجیحات ہیں۔
چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک شیر علی ارباب نے بریفنگ کے بعد اس امر پر زور دیا کہ ہمیں پہلے پاکستان میں موجود زرعی ڈھانچہ اور ان میں موجود خامیوں کو ختم کرنا ہو گا تاکہ جدید زرعی معلومات اور تجربات کی روشنی میں ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی ترتیب دی جا سکے اور جدید سائنسی بنیادوں پر زراعت میں درپیش خامیوں کا حل تلاش کیا جا سکے۔