ایک بات ہمیں واضح طور پرسمجھ لینی چاہیے کہ خاص طور پر پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو اشتہارات بہت پسند ہوتے ہیں، اگر آپ کسی اخبار کے نیوز روم میں کام کرتے رہے ہیں تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ پہلے صفحے پر بڑے سائز کے اشتہار کا مطلب کیا ہوتا ہے، یہی کہ آپ کو تنخواہ کچھ دن پہلے ملنے کی توقع ہے، اشتہار دیکھ کر غیریقینی صورت حال سے دوچار اس شعبے (پرنٹ میڈیا) کے حوالے سے کچھ اُمید سی پیدا ہو جاتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں اخبارات و رسائل پر چند برسوں سے ایک کے بعد ایک وار کیا جا رہا ہے مگر پھر بھی ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ پر سخت نگرانی اور پابندیوں کی وجہ سے اکثر اوقات اختلاف رائے کے اظہار کا واحد ذریعہ اخبارات اور میگزین ہی سمجھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب سے پی ٹی آئی حکومت مسند اقتدار پر براجمان ہوئی ہے، اس نے سرکاری اشتہارات کی رقم روک کر اخبارات کے پر کترنے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے۔
یہی وہ امر ہے جس سے پاکستانی پرنٹ میڈیا کے بزنس ماڈل کی سب سے بڑی خرابی سامنے آتی ہے، سالہا سال سے اخبارات کا انحصار سرکاری اشتہاروں پر چل رہا ہے، یہ اشتہارات وہی لوگ جاری کرتے ہیں جن کے احتساب کی اخبارات سے اُمید کی جاتی ہے، روزافزوں پنجے گاڑتی ہوئی بدترین سینسرشپ کے ساتھ ساتھ مالی ذرائع کی بندش حکمرانوں کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کو اپنے مؤقف پر چلانے کا ایک ظالمانہ مگر موثر ہتھکنڈہ ہے۔
کہیں نہ کہیں قصور پرنٹ میڈیا کا بھی ہے کیونکہ اس کا بزنس ماڈل ایک ٹائم بم تھا جس کا سارا انحصار نامی گرامی پبلشرز اور ایڈیٹرز کے سیاستدانوں کے ساتھ ذاتی مراسم پر رہا۔ پاکستان کو ایسے اخبارات کی ضرورت تھی جن کیلئے عوام پیسہ خرچ کرتے، جیسا کہ کاروبار، معیشت اور سٹارٹ اپس کو کور کرنے والے ہمارے پرافٹ میگزین نے سبسکرپشن پالیسی متعارف کروائی ہے تاکہ جو لوگ پڑھنا چاہیں وہ رقم خرچ کرکے پڑھیں۔
لیکن یہ مضمون میڈیا مالکان کے بزنس ماڈل کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ اس سے متعلق ہے کہ کیسے حکومت اشتہارات کے ذریعے بیانیے کو قابو کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

13 دسمبر 2020ء کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے مینار پاکستان گراؤنڈ لاہور میں جلسہ کیا، اس کی میڈیا کوریج کے حوالے سے پیشگوئی کرنا بالکل آسان تھا، حکومت حمایتی اے آر وائی نیوز جیسے چینلز کی ساری تان اسی بات پر ٹوٹتی رہی کہ جلسہ کے شرکاء کی تعداد بہت کم تھی، اس کے علاوہ پی ڈی ایم رہنماؤں کی جانب سے تقاریر کے دوران لیے گئے کچھ ’ناموں‘ کی وجہ سے بھی چینلز نے نشریات کو سینسر کیا۔
اگلے روز انگریزی اخبارات کے پہلے صفحے پر لاہور جلسے کی خبریں نمایاں انداز میں شائع ہوئیں جو ایک معمول کا عمل تھا۔ لیکن زیادہ تر اردو اخبارات کا پہلا صفحہ پی ڈی ایم جلسے کی خبروں کے بجائے سرکاری اشتہارات سے رنگین تھا اور جلسے کی خبریں اندر کے صفحات پر منتقل کر دی گئیں تھیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ حکومت نے اشتہارات کی مد میں دی جانے والی رقم کا استعمال بیانیے کو قابو کرنے کے لیے کیا ہو، اور نہ ہی یہ حقیقت پہلی دفعہ عیاں ہوئی ہے کہ میڈیا سرکاری اشتہارات کے بل بوتے پر چلتا ہے۔
اخبارات کیلئے اشتہارات کتنے اہم ہیں؟
اخبارات تین طرح کے اشتہارات چھاپ سکتے ہیں، پہلی قسم کلاسیفائڈ اشتہارات کی ہے جو اپارٹمنٹس کی خرید وفروخت، نام کی تبدیلی، اعلانات، تعزیت نامے یا دیگر ایسے ہی چھوٹے موٹے اشتہارات ہوتے ہیں، دوسری قسم کمرشل اشتہارات کی ہے، یہ اشتہارات بینک، ملٹی نیشنل کمپنیاں، بلڈرز یا دیگر بڑے ادارے اپنی مارکیٹنگ مہم کے سلسلے میں مہیا کرتی ہیں اور اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں۔ تیسری قسم سرکاری اشتہارات کی ہے جو نئے منصوبوں کے اعلانات، عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے، نئے منصوبوں کے ٹینڈر یا تکمیل شدہ منصوبوں کی تشہیر کیلئے جاری کیے جاتے ہیں۔
ایک بار پھر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اخبارات کا مالی ڈھانچہ کیسے کام کرتا ہے، حکومت یا کوئی کمپنی اشتہار کے لیے اخبار میں جگہ اس لیے خریدتی ہے تاکہ ان کا اشتہار زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نظروں سے گزرے، چونکہ اشتہارات کے معاملے میں لوگوں کی پسند مختلف ہوتی ہے لہٰذا جب بھی کوئی بڑی مارکیٹنگ مہم چلائی جاتی ہے تو حکومت تمام بڑے اخبارات میں اشتہارات دیتی ہے۔
اخبارات اپنی سرکولیشن کے اعدادوشمار ہمیشہ خفیہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، (ہمارے میڈیا گروپ کے ایک سینئیر ایڈیٹر تو اکثر یہ کہتے پائے گئے کہ کبھی کسی ایڈیٹر سے اس کی عمر، تنخواہ اور سرکولیشن سے متعلق مت پوچھیں )، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ اخبارات کے ذریعے چلائی جانے والی مارکیٹنگ مہمات کتنی کامیاب ہوتی ہیں۔
22 جنوری 2017ء کو ایک جلسے سے خطاب میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ذاتی تشہیر کے لیے سرکاری خزانے سے 12 ارب روپے کے اشتہارات میڈیا کو جاری کیے حالانکہ اتنی بڑی رقم ملک میں شعبہ صحت کی بہتری کیلئے استعمال کی جا سکتی تھی۔ 12مارچ 2018ء کو عمران خان نے سرکاری اشتہارات میں سیاسی رہنماؤں کی ذاتی تشہیر کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا، ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ”ہم چیف جسٹس کی جانب سے ان سرکاری اشتہارات سے متعلق تحقیقات اور اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ٹیکس دہندگان کا وہ پیسہ لوٹانے کی ہدایت کی گئی ہے جو انہوں نے ذاتی تشہیر پر خرچ کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اپنے ٹیکس ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ حکمران وہ پیسہ ذاتی تشہیر پر خرچ کرتے ہیں۔”

29 اگست 2018ء کو پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے جب سرکاری اشتہارات کے حوالے سے سینیٹ اجلاس کے دوران سوالات اٹھائے تو حکومت کی جانب سے بتایا گیا 2013ء سے 2017ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو مجموعی طور پر 15.74 ارب روپے کے اشتہارات جاری کیے جو سالانہ چار ارب روپے بنتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی بھی اشتہارات پر رقم خرچ میں پیچھے نہیں ہے، اگرچہ اس نے میڈیا کیلئے سرکاری اشتہارات پر کافی پابندیاں عائد کی ہیں۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے اعدادوشمار کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد پہلے نو ماہ یعنی 18 اگست 2018ء سے31 مئی 2019ء تک الیکٹرانک میڈیا کو دو ارب 45 کروڑ 80 لاکھ روپے جبکہ پرنٹ میڈیا کو 13 کروڑ 70 لاکھ روپے کے اشتہارات جاری کیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اشتہارات کی مد میں موجودہ حکومت نے سالانہ 3.3 ارب روپے خرچ کیے جو مسلم لیگ (ن) کے دورِاقتدار کی نسبت ایک ارب روپے کم ہیں۔
چونکہ پی آئی ڈی کے اعدادوشمار پر بھروسہ کم ہی کیا جاتا ہے، لہٰذا ان اعدادوشمار کی تصدیق اور موازنہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے پہلے نو ماہ کے دورن اشتہارات کے اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو موجودہ حکومت نے اس عرصے میں 3.3 ارب روپے کے اشتہارات جاری کیے جبکہ سابق حکومت نے اپنے پہلے نو ماہ یعنی 5 جون 2013ء سے 17 مارچ 2014ء تک پرنٹ میڈیا کو 94 کروڑ اور الیکٹرانک میڈیا کو 38 کروڑ 60 لاکھ روپے کے اشتہار جاری کیے۔
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت بنانے کے بعد 25 مارچ 2008ء سے یکم جنوری 2009ء تک نو ماہ کے عرصے میں اخبارات کو 93 کروڑ 50 لاکھ روپے کے اشتہارات جاری کیے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کو اس دوران کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔
تو مسئلہ کیا ہے؟
برسراقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی نے متعدد بڑی میڈیا کمپینز چلائی ہیں، جیسا کہ پہلے سو دنوں کی کامیابیوں پر ایک مہم چلائی گئی، اگرچہ اشتہارات پراٹھنے والے اخراجات پی ٹی آئی کے سابق دعوئوں کے برعکس تھے مگر یوٹرن والی بھپتی کسے بغیر اسے پالیسی میں تبدیلی کا نام دیا جا سکتا ہے، ہوسکتا کہ پی ٹی آئی نے میڈیا اشتہارات کے حوالے سے عقل سے کام لینا شروع کر دیا ہو، مگر پریشان کن امر اس پیسے کا استعمال ہے کیونکہ حکومت یہ پیسہ صرف اپنی پسند کے میڈیا اداروں پر نچھاور کرتی ہے۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اگر حکومت کو میڈیا میں اشتہار دینے کی ضرورت پیش آئے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہر میڈیا ہائوس کو اشتہار دے، ہر شخص ایک چینل دیکھتا ہے نا ہی ایک اخبار پڑھتا ہے، لہٰذا پوری ایمانداری سے اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ ہر چینل اور اخبار کو اشتہارات دے، یہ بالکل غلط وطیرہ ہے کہ سرکاری اشتہارات کا پیسہ صرف اسی میڈیا ہاؤس کو دیا جائے جو حکومت کا حامی ہو۔
بڑا مسئلہ پھر وہی ہے کہ میڈیا ہاؤسز خاص کر اخبارات سرکاری اشتہارات پر منحصر رہنا چاہتے ہیں، یہی وہ کمزوری ہے جس کا کوئی بھی حکومت کسی بھی وقت فائدہ اُٹھا سکتی ہے، اگرچہ ایسا کرنا کسی بھی طرح سے غیرقانونی حتیٰ کہ غیرمناسب نہیں مگر غیراخلاقی ضرور ہے۔
سرکاری اشتہارات کا زیادہ تر پیسہ ان اخبارات کو دینا جو پہلے ہی تاک بیٹھے ہوں اور اسکے عوض اہم خبروں کو نمایاں صفحات سے ہٹا دینے کو تیار ہوں، یہ بھی ظالمانہ ہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، یہ کاروبار لحاظ سے آخری سانسیں گن رہی ہے، اسے مالی معاونت میں کمی کا سامنا ہے، ایسے میں حکومت اس کیلئے مزید مالی مشکلات پیدا کرکے اسے اپنے اشاروں پر نچانے سے نہیں شرمائے گی۔
میڈیا کا تضاد
پاکستان میں بہت کم لوگ انگریزی اخبار پڑھتے ہیں، اکثریت اردو صحافت سے مستفید ہوتی ہے، انگریزی اخبار اس لیے اہم ہیں کیونکہ انہیں اشرافیہ پڑھتی ہے جو ملک میں بااثر اور فیصلہ ساز ہے۔ لہٰذا پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کے بعد جو ہوا وہ کافی دلچسپ تھا۔ ہم بات کر رہے ہیں کہ کیسے حکومت اشتہارات کے ذریعے اپنے مخالف بیانیے کو قابو کرنے اور اخبارات کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہی ہے، اپوزیشن کے جلسے کے دن حکومت نے اردو اخبارات کے پہلے صفحات پر اشتہارات کیلئے جگہ خرید کر یہی کچھ کیا۔ اگلے دن اخبار پڑھنے والوں نے اہم خبریں ی تلاش میں پہلے صفحے کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھا، جو دکھتا ہے وہی بکتا کے مصداق حکومت نے اسی بات کو اپنے فائدہ کیلئے استعمال کیا۔
یہی وجہ ہے کہ جس دن لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ تھا، اس دن پریس آفیسرز نے صبح کے اوقات میں وزیراعظم عمران خان کی اپنے پالتو کتوں کے ساتھ وقت گزارنے کی تصاویر اخباروں اور ٹی وی چینلز کو بھجوائیں، اشتہارات کے پیسے کے علاوہ حکومت تصاویر کو بھی بیانیے کے کھیل میں اپنا پلڑا بھاری رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے کے اگلے روز اردو اخبارات کے پہلے صفحات اشتہارات سے بھرے تھے، جس کا مقصد عام آدمی کی توجہ حاصل کرنا تھا نا کہ انگریزی اخبارات پڑھنے والی اشرافیہ کی۔
پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈان سے وابستہ صحافی احسن رضا کے مطابق مذکورہ اشتہارات میں کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ان وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی تصاویر نہیں تھیں اور یہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق تھے۔
احسن رضا کے بقول ”اردو اخبارات میں جو وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی تصاویر والے اشتہارات شائع ہوئے وہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز کی جانب سے دیے گئے جو ایک نجی ایسوسی ایشن ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کبھی بھی اپنی تصویر کے ساتھ اشتہار نہیں چھپوائے کیونکہ وہ اپنی تشہیر پر یقین نہیں رکھتے، اس کے باوجود ہم پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو سب سے آخر میں شکایت کرنی چاہیے کیونکہ سرکاری اشتہارات بہرحال اخبارات کیلئے مالی مدد کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں، ایسی آوازیں اس وقت نہیں اٹھیں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اشتہارات پر 17 ارب روپے خرچ کر دئیے تھے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے میڈیا کا تضاد سامنے آتا ہے، ایک طرف تو یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پسند نہ پسند کی بجائے منصفانہ طور پر اشتہارات دیے جائیں، دوسری جانب حکومت اشتہارات دے یا روک لے، صحافتی صنعت کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے، اگرچہ صحافیوں کے بھی آئیڈیل ہوتے ہیں، لیکن ان کے خاندان بھی ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہوتی ہے، ایک ایسے وقت میں جب شعبہ صحافت کیلئے زمین دن بہ دن تنگ ہو رہی ہے، تجزیہ کرتے وقت یہ سب باتیں ضرور مدنظر رکھنی چاہییں۔
اگرچہ اردو اخبارات میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی تصاویر کے ساتھ شائع ہونے والے اشتہارات ایک نجی تنظیم کی جانب سے دیے گئے تھے، مگر اشاعت کے وقت سے بے شمار سنجیدہ سوالات نے جنم لیا، حزب اختلاف نے الزام لگایا کہ نجی شعبے کے ذریعے مذکورہ اشتہارات کو شائع کروا کر حکومت خود کو بری الذمہ قرار دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو اس طرح کے اشتہارات شائع کروانے پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے، اس حوالے سے پراٖفٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں اخبارات کے پہلے صفحات اور لاہور بھر میں ہورڈنگز پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی تصاویر دیکھ کر بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی، آخر وہ کون سا وعدہ ہے جس سے عمران خان ہیچھے نہیں ہٹے؟

حنا پرویز بٹ نے کہا کہ ”یاد کریں وہ وقت جب سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعلی شہباز شریف کی تصاویر والے اشتہارات شائع ہونے پرعمران خان اُن پر تنقید کے نشتر برساتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ ان کے باپ کا پیسہ ہے جو یہ اپنی ذاتی تشہیر پر لگا رہے ہیں، اب وہی کام خود کام کر رہے ہیں، فرق بس یہ ہے کہ ان کی یہ حرکت زیادہ گھناؤنی ہے، یہ پی ڈی ایم کی وجہ سے دباؤ میں آئی ہوئی حکومت کی جانب سے اپنا تاثر بہتر کرنے اور حکومت مخالف تحریک کو میڈیا سے غائب رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔”
حنا پرویز بٹ کے بقول 2017ء میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف نے اشتہاراتی مہمات پر 12 ارب روپے خرچ کر دیے ہیں۔ ہم اب یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بتائے کہ اس نے عوام کو دھوکا دینے کی نیت سے جاری کیے گئے اشتہارات پر کتنی رقم خرچ کی؟
اسی قسم کے تحفظات پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے، حنا پرویز بٹ سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی شرمیلا فاروقی کہتی ہیں کہ پی ڈی ایم جلسے کی کوریج کو پرنٹ میڈٖیا سے باہر رکھنے کیلئے عوامی پیسے سے اخبارات کے پہلے اور آخری صفحات خریدے گئے، یہ ناکامی سے دوچار پنجاب حکومت کی تشہیر کیلئے ایک چال تو ہو سکتی ہے، مگر اس سے پی ٹی آؕئی حکومت کی بد دیانتی، بے ایمانی اور عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش بےنقاب ہو چکی ہے۔
اس تنقید کے دفاع میں حکومت کے پاس سادہ سا جواب ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزار کی تصاویر والے اشتہارات اس نے جاری نہیں کیے اور اس پر سرکاری خزانے کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا، اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی عثمان بزدار کی واضح ہدایات ہیں کہ ذاتی تشہیر کیلئے سرکاری خزانے سے ایک پیسہ خرچ نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی تصاویر والے اشتہارات ایک نجی ایسوسی ایشن کی جانب سے دئیے گئے تھے کیونکہ حکومت نے انہیں تاریخی پیکج دیا تھا اور یہ صرف شکریہ کا ایک سادہ سا پیغام تھا، حکومت پنجاب کی جانب سے ایل ڈی اے کے ایک منصوبے کا اشتہار بغیر کسی کی تصویر کے تھا اور اس طرح کے اشتہارات اخباری صنعت کو سہارا دینے کے لیے ضروری ہیں لہٰذا یہ سرکاری اشتہارات ذاتی تشہیر کے لیے نہیں تھے۔
اظہر مشوانی نے کہا کہ اگرچہ حکومت کے کچھ حامیوں اور کارکنوں نے قیادت کی تصاویر والے ہورڈنگز لگائے لیکن اس کا سخت نوٹس لیا گیا ہے اور انہیں دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگرچہ اظہر مشوانی نے اس بات کو رد کیا کہ اخبارات میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدارکی تصاویر والے اشتہارات حکومت نے جاری کیے تھے مگر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو محض حکومت کی جانب سے اصل مقصد حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کبھی حکومت کسی مخصوص دن اشتہار دینے کی درخواست کرتی ہے تو یہ کاروبار خوشی سے ایسا کر دیتے ہیں تاکہ مزید کاروباری فوائد حاصل کر سکیں، اشتہاراتی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے کے اگلے روز اردو اخبارات میں لگنے والے اشتہارات کی ٹائمنگ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ یہی ہے۔