کپاس کی پیدوار خطرناک حد تک کم، زراعت، ٹیکسٹائل سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

ایک زمانے میں پاکستان کا شمار کپاس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا تھا لیکن اب پیداواری اہداف کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کی ذمہ داری تمام سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کے سر ڈالتے نظر آتے ہیں

2867

چند ایک چیزیں ایسی ہیں جن پر ہم پاکستانی بہت فخر کرتے ہیں، پرائمری اور سیکنڈری کی معاشرتی علوم کی کتابوں سے لے کر پاکستانیوں کو اس بات پر قائل کیا جا رہا ہے کہ ہمارا کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، کپڑا اور رسیلے آم دنیا  بھر میں اپنا مقام رکھتے ہیں اور یہی چیزیں برآمدات سے متعلق ملکی مشکلات کو دور کر سکتی ہیں۔

صنعت، جدت اور ٹیکنالوجی  پر توجہ مرکوز کرکے معیشت کو ترقی دینے اور متنوع بنانے کے حوالے سے بہت کم تجزیاتی معلومات دستیاب ہیں، پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے تاہم حالیہ برسوں میں زرعی شعبے کی صورت حال بھی زوال پذیر دکھائی دے رہی ہے۔

جب سے 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے حکومت کا مقصد برآمدات کو فروغ دینا اور درآمدات میں کمی لانا ہے تاکہ ادائیگیوں کا توازن قائم  رکھا جا سکے، پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات بلاشبہ ٹیکسٹائل کی ہیں اور اس میں کاٹن یارن اور جنڈ کاٹن سب سے زیادہ ترقی یافتہ شعبے ہیں۔

India has put regional peace, progress at stake: Fakhar Imam
وفاقی وزیر خوراک سید فخر امام

پاکستان اپنی کپاس اور ٹیکسٹائل برآمدات پر انحصار کرتا ہے مگر رواں سال کپاس کے مطلوبہ پیداواری ہدف کے حصول میں ناکامی کا سامنا رہا ہے، اعدادوشمار کی وجہ سے پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری پریشان ہے، صورت حال کچھ یوں ہے کہ 2015ء سے لے کر 2020ء تک پاکستان کی کپاس کی پیداوار میں 35 فیصد کمی ہو چکی ہے، 2015ء میں ایک کروڑ 40 لاکھ  گانٹھیں (بیلز) پیداوار ہو رہی تھیں جو 2020ء میں کم ہو کر صرف 90 لاکھ کی سطح پر آ گئی ہیں، حکومت بڑے بڑے اہداف تو مقرر کر لیتی ہے مگر سوویت طرز کے ان میکرواکنامک اہداف کے حصول کے لیے کاشت کاروں کو کوئی مدد فراہم نہیں کرتی۔

بہرحال کپاس کی پیداوار کے مقررہ ہدف کے حصول کے لیے حتمی کوشش شروع ہو چکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملک کو اس ضمن کامیابی حاصل ہو پائے گی۔

برآمداتی اہداف 

فی الوقت کپاس کی پیداوار میں کمی یا برآمدات کم ہونے کا مسئلہ زربحث نہیں، بلکہ مسئلہ اہداف کے حصول میں ناکامی کا ہے، حال ہی میں منظور ہونے والی ٹیکسٹائل پالیسی برائے 2020-25ء میں واضح طور برآمداتی ہدف کا ذکر کیا گیا ہے، اس پلان کے تحت 2025ء کے اختتام تک ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 25.3 ارب ڈالر تک لے جانا مقصود ہے اور ان پانچ سالوں کی کامیابی پر انحصار کرتے ہوئے 2030ء تک ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 50 ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔

اس ہدف کے حصول کے لیے ناصرف کپاس کی مقامی پیداوار بڑھانا ہو گی بلکہ معیار بھی بہتر بنانا ہو گا، فی الحال پاکستانی کپاس کو دوسرے درجے کا سمجھا جاتا ہے اور اگر فصل کے معیار کو بہتر کر لیا جاتا ہے تو ناصرف اس کی مانگ بلکہ قیمت میں بھی اضافہ ہو گا اور اس کی بدولت ملکی برآمدات میں بھی بڑھیں گی۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر معیار کو بہتر کر لیا جاتا ہے تو پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس سے فائدہ ہو گا کیونکہ معیاری کپاس کی بدولت ٹیکسٹائل مصنوعات کی کوالٹی پر مثبت اثر پڑے گا۔

ماہر نباتات ڈاکٹر غلام سرور (کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد)

پاکستان گزشتہ برس سے اپنے برآمدی ہدف کے حصول میں ناکام ہے، 2019ء میں کپاس کی ایک کروڑ پچاس لاکھ گانٹھوں کی پیداور کا ہدف رکھا گیا تھا مگر صرف ایک کروڑ دو لاکھ گانٹھیں ہی پیدا ہو سکیں، سال کے آخر میں خراب موسم کی وجہ سے صرف اسی لاکھ گانٹھیں ہی بچی تھیں، اس کی وجہ کپاس کشت کرنے کے پرانے طریقوں کے حوالے سے حکومتی عدم توجہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، تحقیق کا فقدان، کاٹن پالیسی کی عدم موجودگی اور کپاس کی بوائی کی جگہوں پر دیگر منافع بخش فصلوں کی کاشت نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ اور بہتر کپاس کی پیداوار کی تکنیک پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

دوسرے ممالک میں یہ طریقہ کارآمد ثابت ہوا ہے، دو دہائیوں قبل پاکستان کی کپاس کی عالمی سطح پر بہت مانگ تھی  تاہم گزشتہ 20 سالوں میں بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ممالک نے اس میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کپاس کی پیداوار کے بہتر طریقے اپنائے ہیں، 2003ء میں جب پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 8.3 ارب ڈالر تھیں تب ویتنام کی ٹیکسٹائل برآمدات 3.87 ارب ڈالر اور بنگلہ دیش کی 5.5 ارب ڈالر تھیں، مگر اب ویتنام کی ٹیکسٹال ایکسپورٹس 36.68 ارب ڈالر، بنگلہ دیش کی 40.96 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی 25.3 ارب ڈالر ہیں۔

رواں برس اکتوبر میں وفاقی وزیر خوراک سید فخر امام نے کپاس کی پیداوار کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے اجلاس میں  بتایا کہ پاکستان رواں برس بھی کپاس کی پیداوار کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔

 صورتحال اس لیے بھی زیادہ خراب ہے کیونکہ گزشتہ برس پاکستان نے ایک کروڑ دو لاکھ گانٹھیں کپاس پیدا کی جس میں سے خراب موسم کے باعث 20 لاکھ گانٹھیں ضائع ہو گئیں، رواں برس حکومت نے ایک کروڑ آٹھ لاکھ نوے ہزار گانٹھوں کی پیداوار کا مناسب ہدف مقرر کیا تھا مگر ملک میں صرف پچاسی لاکھ 97 ہزار گانٹھیں کپاس پیدا ہوئی۔

وفاقی وزیر خوراک کا کہنا ہے کہ کپاس کی کم پیداوار کی بنیادی وجوہات میں غیرمعیاری بیج، نئی بیج ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، ہیٹ ویو، موسمیاتی تبدیلیاں، کپاس کے پتوں کو نقصان پہنچانے والا وائرس، سفید مکھی اور کپاس کی سنڈی کے حملے ہیں۔  کمیٹی کے اجلاس میں کپاس کی پیداوار والے علاقوں کی مشکلات بارے بھی غور کیا گیا اور پنجاب میں  کپاس کی پیداوار میں چار فیصد کمی کی وجوہات پر بھی بات ہوئی، جنوبی پنجاب میں ملتان ڈویژن میں کپاس کی پیداوار میں کمی جبکہ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان میں اس کی بہتر فصل پیدا ہوئی۔

وزیر خوراک سید فخرامام نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ”پنجاب میں ساٹھ لاکھ گانٹھوں کے ہدف کے مقابلے میں اندازاََ 53 لاکھ، سندھ میں 46 لاکھ کے ہدف کے مقابلے میں 30 لاکھ جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب چھ ہزار 500 اور دو لاکھ 91 ہزار گانٹھوں کی پیداوار متوقع ہے۔”

حقیقت کیا ہے؟

اگرچہ وزیر خوراک خود تسلیم کر چکے ہیں کہ رواں برس کپاس کی پیداوار کم ہو گی، مگر معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ پیداوار وزیر صاحب کے دعوے سے بھی کم رہے گی، نام پوشیدہ رکھنے کی شرط ایک ایک ذریعہ نے بتایا کہ رواں برس کپاس کی پیداوار زیادہ سے زیادہ 55 لاکھ گانٹھیں رہنے کا امکان ہے اس لیے مقامی ٹیکسٹائل صنعت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تین ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔

کاٹن جنرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 16 نومبر سے یکم دسمبر 2020ء تک زیادہ سے زیادہ 46 لاکھ 48 ہزار گانٹھیں کپاس جننگ فیکٹریوں میں پہنچی جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 74 لاکھ 48 ہزار گانٹھیں ملوں کو وصول ہوئیں تھیں۔ یوں زیرتجزیہ عرصے میں  شارٹ فال 27 لاکھ 99 ہزار گانٹھوں کا ہے جو 37.59 فیصد بنتا ہے۔

پنجاب میں یکم دسمبر 2020ء تک 26 لاکھ 34 ہزار گانٹھ کپاس جننگ ملوں تک پہنچی،  جو گزشتہ برس کی 41 لاکھ 41 ہزار گانٹھوں سے 36.38 فیصد کم ہے۔ اسی طرح سندھ میں  20 لاکھ 14 ہزار گانٹھیں ملوں میں پہنچیں جو گزشتہ سال کی 33 لاکھ 64 ہزار سے 39.10 فیصد کم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

ٹیکسٹائل برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹ آرڈرز پورے کرنا مشکل

’1990ء کے بعد پہلی بار فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل بحال‘

فیصل آباد میں صنعتی سرگرمیاں تیز، ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اڑھائی لاکھ ملازمین کی کمی

’ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمدی آرڈرز میں ریکارڈ اضافہ، روئی کی قلت، اربوں کی روئی درآمد کرنا پڑے گی‘

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق یکم دسمبر تک  ٹیکسٹائل سیکٹر نے 37 لاکھ 94 ہزار جبکہ برآمد کنندگان نے ساڑھے چار لاکھ گانٹھیں خریدیں، زیر تجزیہ عرصے میں پنجاب میں  302 جننگ ملیں کام کر رہی تھیں جنہوں نے 24 لاکھ 18 ہزار گانٹھ روئی پیدا کی جبکہ 8 لاکھ 93 ہزار گانٹھیں فروخت نہ ہونے کی وجہ سے تاحال جننگ ملوں میں پڑی ہیں۔

گزشتہ کچھ سالوں کی تاریخ اور پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار اُس خوف کو تقویت دے رہے ہیں کہ آئندہ کپاس کے پیداواری رقبے میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ کاشتکاروں کی توجہ دیگر منافع بخش فصلوں پر مرکوز ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان، جس سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ وہ کپاس برآمد کرے گا، اسے یہ درآمد کرنا پڑے گی۔

کاٹن کراپ اسیسمنٹ کمیٹی کے ایک رکن نے پرافٹ اردو سے گفتگو میں کپاس کی فصل سے متعلق مندرجہ بالا اعدادوشمار کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ پاکستان کپاس کے زیرکاشت رقبے سے محروم ہو رہا ہے جو گانٹھوں کی پیدوار کے لحاظ سے ضروری ہے۔ لیکن کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے کیونکہ کاشتکار کو اس سے اچھی آمدن نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے وہ دوسری منافع بخش فصلوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں۔

کمیٹی کے رکن کا مزید کہنا تھا کہ “پاکستان میں کپاس سے متعلقہ تحقیقی ادارے اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہے، کیٹرے فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں اور انہوں نے دواؤں کے خلاف قوت مدافعت حاصل کر لی ہے، ہم انہیں مارنے کے لیے کسانوں کی مدد نہیں کر پا رہے، اس مسئلے نے کسانوں کو کپاس کاشت کرنے سے روک رکھا ہے، کپاس کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے  کے لیے مسلسل اور عالمی معیار کی تحقیق کی ضرورت ہے، تحقیق اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کون سی کھاد یا بیج استعمال کیا جائے، بدقسمتی سے فی الوقت یہ کام درست انداز میں نہیں ہو رہا۔”

لیکن جب تک حکومت کی پشت پناہی رکھنے والے ادارے اپنا کام اور مدد فراہم نہیں کرتے تھے تب تک کاشت کار کپاس کی فصل پر حملہ آور ہونے والے کیڑوں کے حوالے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ بدین سے تعلق رکھنے والے کپاس کے ایک ترقی پسند کاشت کار عاقب خان نیازی کا پرافٹ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ”میری تین سو ایکڑ اراضی سے کپاس کی پیداوار صرف ایک سو کلوگرام فی ایکڑ رہ گئی تھی، مایوس ہو کر رواں برس کپاس کی جگہ گنا کاشت کرنے پر مجبور ہوں۔”

عاقب نیازی کا مزید کہنا تھا کہ ”تحقیق کی عدم موجودگی کے باعث رواں سال بھی پیداوار بُری رہی، کوئی ہمیں بیج، کیڑے مار ادویات، ان کے استعمال کے وقت اور کھاد سے متعلق رہنمائی فراہم کرنے کے لیے موجود نہیں، دراصل سرے سے کوئی رہنمائی میسر ہی نہیں تھی۔”

دوسری طرف کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے ساتھ منسلک ماہر نباتات ڈاکٹر غلام سرور کا پرافٹ سے گفتگو میں اپنے اور مختلف تحقیقی اداروں میں اپنے ساتھیوں کے کام کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی متعدد وجوہات ہیں جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی اور کاشتکاروں کا دیگر فصلوں بشمول گنا اور مکئی کی جانب راغب ہو جانا۔ ہم کسان کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ چاول، گندم اور کسی دوسری فصل کی جگہ کپاس اُگائے۔”

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ کپاس اور اس کی ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس کا پاکستان کے جی ڈی پی میں 10 فیصد اور برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن میں 55 فیصد حصہ ہے مگر گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان میں کپاس کی فصل اپنا اصل کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے اور 2020ء میں تو پاکستان نے ٹیکسٹائل کی برآمداتی مصنوعات کی تیاری کیلئے کپاس درآمد کی ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ کپاس کی فصل کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، ایک طرف تو یہ گرم علاقوں کی فصل ہے اور جب موسم تبدیل ہوتا ہے تو فصل کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، اس پر کیڑوں کے متعدد حملے ہوتے ہیں اور ہر کاشت کار بار بار کیڑے  مار ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ وہ کافی مہنگی ہوتی ہیں۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے گزشتہ 30 سالوں میں زرعی شعبے میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی، نہ اس نے کسانوں کو کوئی مراعات دی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کاشتکاروں نے کم منافعے کے باعث کپاس کی جگہ دیگر فصلوں کی کاشتکاری پر توجہ  دینا شروع کر دی ہے۔

کپاس کا زیر کاشت رقبہ 

یہ اصل مسئلہ ہے، آپ جتنی مرضی جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کی مدد حاصل کرلیں لیکن اگر زیرکاشت رقبہ ہی کم ہو جائے گا تو ناصرف کپاس کی پیداوار کم ہو گی بلکہ اس کی برآمد کا حجم بھی متاثر ہوگا۔ پرافٹ کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں کپاس کا زیرکاشت رقبہ اور اس کی پیداوار میں کمی کا سلسلہ 2011ء سے جاری ہے، کپاس کا زیر کاشت رقبہ 2011ء میں 28 لاکھ 60 ہزار ہیکٹر تھا جو 2020ء میں 24 لاکھ 80 ہزار ہیکٹر رہ گیا، اسی طرح پیداوار بھی کم ہوئی، 2011ء میں 11.13 ملین گانٹھیں کپاس پیدا ہوتی تھی جب کہ 2020ء میں یہ آٹھ ملین کی سطح پر آ گئی حالانکہ خود حکومت نے رواں سال ایک کروڑ 50 لاکھ گانٹھوں کا ہدف رکھا تھا۔

وزارتِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے پارلیمانی سیکرٹری محمد امیر سلطان نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ  پُرنم موسم کی وجہ سے  کپاس کی گانٹھوں پر کیڑے حملہ آور ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت 2019ء میں ایک کروڑ 50 لاکھ اور 2020ء میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ 90 ہزار گانٹھوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

”حکومت کپاس کی گانٹھوں کی قیمت بڑھانے اور ہائبرڈ بیج خرید کر کسانوں کو دینے کے حوالے سے کام کر رہی ہے، اس سے کسان کسی دوسری فصل کے بجائے دوبارہ کپاس کاشت کرنے اور اس کی پیداوار بڑھانے کی جانب راغب ہوں گے۔”

جنوبی پنجاب کے ضلع  مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے کپاس کے ایک کاشتکار ملک عرفان حیدر بودھ  بھی امیر سلطان سے اتفاق کرتے ہیں، وہ پُر امید پسند ہیں، پرافٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کپاس کی امدادی قیمت متعارف کروائے جانے کے بعد یہ فصل کسانوں کے درمیان ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گی۔

انہوں نے کہا کہ ”جنوبی پنجاب اس اقدام کی وجہ سے بہت خوش ہے، اب لوگ پی ٹی آئی کو کسان دوست جماعت کے طور پر دیکھتے ہیں اور ایسا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور کے بعد ہوا ہے، پی پی پی کے دور میں کسان خوش حال ہوئے تھے اور اب موجودہ حکومت نے کسان برادری کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔”

مگر ملک میں کپاس کی پیداوار کے حالیہ بحران پر عرفان حیدر بھی پریشان دکھائی دئیے، ان کا کہنا تھا کہ مختلف وجوہات کی بناء پر پاکستان کپاس کی پیداوار کے بڑے حصے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے، سب سے بڑی وجہ قیمت کا کم ہونا ہے، جس کی وجہ سے کسان کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی، اس کے علاوہ نئی اقسام کی سنڈیاں اور مکھیاں آ گئی ہیں جن پر کیڑے مار ادویات کا اثر بھی نہیں ہوتا، موسمیاتی تبدیلی بھی ایک بڑی وجہ ہے، اپریل میں ہونے والی بارشوں سے گندم کی کٹائی میں تاخیر کی وجہ سے کپاس کی کاشت بھی تاخیر کا شکار ہو گئی۔

خام روئی اور سوت کی درآمد 

مگر جو موجودہ صورت حال کے مطابق تو پاکستان کو کپاس درآمد ہی کرنا پڑے گی، گو کہ سوت کی درآمد پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے اور ٹیکسٹائل پالیسی 2020-25ء میں کپاس کی پیداوار اور برآمد کو اولین اہمیت دی گئی ہے، مگر ٹیکسٹائل برآمد کنندگان طویل عرصے سے موجودہ صورت حال کی تاک میں بیٹھے تھے، اب وہ سوت کی درآمد پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹوانے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔

نومبر میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر میاں انجم نثار نے کہا تھا کہ سوت پرعائد پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹانے سے ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر کو بے حد مدد ملے گی جس کی وجہ سے معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور برآمد کنندگان قیمتوں میں مسابقت اور مصنوعات میں وسعت حاصل کر سکنے کے قابل ہو جائیں گے۔

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ کے مطابق مقامی سطح پر کپاس کی پیداوار اتنی نہیں ہوئی کہ اس سے ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر کی ضروریات پوری کی جاسکیں، جسے اس وقت بہت زیادہ آرڈرز مل رہے ہیں، ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے سبب کپاس مسابقتی قیمت پر دستیاب نہیں ہے جبکہ اس کی درآمد کے مشکل معاملات، کورونا اور اس کے نتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن نے ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے صورت حال مزید بگاڑ دی ہے۔

ادارہ برائے شماریات ( پی بی ایس ) کے مطابق مالی سال 2019-20ء کے جولائی تا جنوری تک کے عرصے میں ملکی خام کاٹن کی درآمدات کا حجم 196.097 ملین ڈالر رہا جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں یہ حجم 137.870 ملین ڈالر تھا، یوں مالی سال 2020ء میں خام کاٹن کی درآمد میں 42 فیصد کا اضافہ ہوا، مالی سال 2019-20ء کے پہلے حصے میں چین، بھارت، ترکی، عمان، انڈونیشیا، ازبکستان، ویتنام اور دیگر ممالک سے پاکستان  نے 24 ہزار  299 ٹن سوت درآمد کیا۔

پرافٹ اردو کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق پاکستان نے چین سے 14 ہزار ایک سو ٹن (کل درآمد کا 58 فیصد) ترکی سے دو ہزار67 ٹن، عمان سے ایک ہزار 38 ٹن، ازبکستان سے 915 ٹن، انڈونیشیا سے 246 ٹن، ویتنام سے 172 ٹن اور دیگر ممالک سے ایک ہزار 28 ٹن سوت درآمد کی۔

اس کے علاوہ پاکستان نے 2019ء کے جولائی تا ستمبر کے عرصے میں بھارت سے چار ہزار 733 ٹن سوت درآمد کی جو مالی سال 2020ء کے پہلے حصے کی کل درآمد کا 19 فیصد ہے، یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پاکستان نے بھارت سے کپاس کی درآمد بند کر دی ہے۔

کپاس کی درآمدات ایک دن ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے مرکزی حیثیت اختیار کر سکتی ہیں، مقامی طور پر کپاس کی کاشت میں کمی کے سبب جننگ اورسپننگ ملوں میں کم گانٹھیں پہنچ رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مل مالکان کو سوت برآمد کرنا پڑے گا تاکہ ملبوسات کی ملکی صنعت کی ضرورت اور برآمدی ہدف پورے کیے جاسکیں۔

تحقیق کی عدم موجودگی کے باعث ملک میں کپاس کی کاشت کے مجموعی رقبے میں کمی واقع ہوئی ہے، ذرائع کے مطابق پاکستان رواں برس کپاس کی 64 لاکھ 60 ہزار گانٹھیں درآمد کرے گا جن کی قیمت تین ارب ڈالر ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے مطالبہ کیا ہے کہ کپاس کے زیرکاشت رقبہ، مجموعی  پیداوار اور فی ایکٹر پیداوار میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں، انہوں نے کپاس کی پیداوار کے اگلے سال کے ہدف کے حصول کے لیے کسانوں کو مراعات دینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

’’حکومت کو 2021ء میں کپاس کی پیداوار میں بہتری کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر مطلوبہ مقدار میں کپاس کی گانٹھوں کا میسر نہ ہونا ملکی سپننگ انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔”

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here