فیصل آباد: کورونا وائرس کی عالمی وبا ک ضرے باوجود پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی پوری صلاحیت سے چل رہی ہے لیکن کپاس کی مقامی پیداوار میں کمی اور برآمدی آرڈرز زیادہ ہونے کی وجہ سے تقریباََ پونے سات ارب کی روئی درآمد کرنا پڑے گی۔
کاٹن جنرز اینڈ بروکرز ایسوسی ایشن کے مطابق ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو دھڑا دھڑ برآمدی آرڈرز ملنے کے باعث پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر اس وقت فل کپیسٹی پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے روئی کی طلب بھی بڑھ کر ایک کروڑ 45 سے 50 لاکھ گانٹھ ہو سکتی ہے جبکہ اس کے برعکس کپاس کی ملکی پیداوار 60 لاکھ گانٹھ کے قریب ہونے سے امسال 80 لاکھ کے قریب گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی جن پر کم از کم 6.75 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
جولائی تا نومبر: پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں پانچ فیصد اضافہ
ٹیکسٹائل برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹ آرڈرز پورے کرنا مشکل
’1990ء کے بعد پہلی بار فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل بحال‘
ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق کپاس کی بڑھتی ہوئی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اب تک بیرون ممالک سے 38 لاکھ 50 ہزار کے قریب کپاس کی گانٹھیں خریدنے کے سودے ہو چکے ہیں جبکہ مزید طلب کے مطابق کپاس کی درآمد کیلئے اقدامات جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سپننگ ملز نے بھی معیاری روئی میں اپنی دلچسپی بڑھائی ہے، اس طرح اعلیٰ معیار کی کپاس کے حصول سے ٹیکسٹائل مصنوعات کے معیار میں مزید بہتری آئے گی۔
ترجمان نے کہا کہ کپاس کی طلب میں اضافہ کی وجہ سے جنرز نے بھی روئی کے نرخ بڑھا دیئے ہیں اور روئی کی قیمت 10 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام کے قریب پہنچ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح حکومت گندم، کماد، چاول، دالوں، روغنی و تیلدار زرعی اجناس سمیت دیگر فصلات کی زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کاشت کیلئے کسانوں کو خصوصی مراعات فراہم کر رہی ہے اسی طرح کپاس کے کاشتکاروں کیلئے بھی مراعات کا اعلان کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقبہ پر وائٹ گولڈ کپاس کی کاشت یقینی بنائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ حکومت کپاس کی ملکی پیداوار میں کم از کم دوگنا اضافے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے اور اس سلسلہ میں زرعی سائنسدانوں اور ماہرین زراعت سمیت محکمہ زراعت کو خصوصی اہداف دئیے جائیں۔
ترجمان نے کہا کہ کپاس کی ایسی اقسام تیار کی جائیں جو بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں و جڑی بوٹیوں کے خلاف بھرپور قوت مدافعت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کے دوران زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل بھی ہوں تاکہ کپاس کی موجودہ ملکی صورتحال میں درآمدی بل کم کرکے قیمتی زر مبادلہ بچایا جا سکے۔