پاکستان کرکٹ بورڈ کو ’کمائو پوت‘ کیسے بنایا جائے؟

پی سی بی کے سی ای او وسیم خان کی قیادت میں پاکستان کی کرکٹ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے لیکن کیا اُن کی متعارف کروائی گئی تبدیلیاں واقعی متاثرکن ثابت ہو رہی ہیں یا یہ محض آنکھیں کا دھوکا ہے؟

2213

اگر کرکٹ کے کسی شائق کے سامنے پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کا ذکر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر آپ کو غصیلے ردعمل، مشتعل نظروں  اور ناقابل اشاعت زبان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو آپ سے برجستہ طور پر موضوع تبدیل کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

اور اگر آپ کرکٹ میں دلچسپی نہ رکھنے والے شخص سے پاکستان میں کرکٹ کے معاملات کے ذمہ دار ادارے کے بارے میں بات کریں گے تو آپ کو غیریقینی پر مبنی تاثرات کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملے گا کہ کرکٹ بورڈ نا اہل اور نکما ہے۔

جو چیز آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی وہ یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اصل میں کیا کرتا ہے، کرکٹ بورڈ میں دلچسپی لینے والے زیادہ تر وہ افراد ہوتے ہیں جو کرکٹ کے شائق ہوتے ہیں اور ان کی بورڈ میں دلچسپی کی واحد وجہ یہ ہے کہ بورڈ ٹیموں کے انتخاب، کپتانوں کی نامزدگی، کوچوں کی تعیناتی، دوروں کے انتظام اور عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ کی نمائندگی کا ذمہ دار ہوتا ہے  تاہم جس چیز کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک کارپوریشن کی طرح کام کرنا اور پیسہ بنانے کے توقع ہے۔

اس توقع یا اُمید کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ناصرف پیسہ کمائے بلکہ یہ پیسہ ملک میں کرکٹ کی بہتری کیلئے بھی بروئے کار لائے، لہٰذا اگر کسی سال بورڈ بہت زیادہ منافع کما لیتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کرکٹ اور اس سے وابستہ افراد بالخصوص کھلاڑیوں کو سہولیات، تنخواہوں کی فراہمی، غیرملکی کوچنگ سٹاف کی بھرتی اور کرکٹ کی مارکیٹنگ کے ضمن میں سرمایہ کاری کر سکے گا۔

مگرعشروں سے یہ تاثر بنا ہوا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں سب کچھ غلط ہی ہوتا ہے، یہ غلط روایات سے جڑا ہوا اور سیاسی پسند نا پسند کا شکار ادارہ ہے جہاں اصلاحات اور جدت کی اشد ضرورت ہے۔

ممکن ہے کہ مطلوبہ اصلاحات اور ان کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے دور کا پلان عمل درآمد کے لیے تیار ہو، ایک ایسا  پلان جو ناصرف بورڈ کے سابقہ تاثر کو بدلنے اور اسے ایک کاروباری ادارہ بنانے سے متعلق ہو۔

اس پلان کے خالق وسیم خان ہیں، جو ایک برٹش پاکستانی اور سابق کاؤنٹی کرکٹر ہونے کے علاوہ واروِک یونیورسٹی (Warwick University) سے ایم بی اے کر رکھا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ وہ فروری 2019ء سے بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) منسلک ہیں۔

ان کی قیادت میں پی سی بی کی کارکردگی کافی حوصلہ افزاء ہے، سالوں تک مالی طور پر خسارے میں رہنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اب 3.8 ارب روپے کا بعد از ٹیکس منافع ظاہر کیا ہے، بورڈ کے مالی ذخائر اَب 17.08 ارب روپے کی سطح پر ہیں جو مالی سال 2018-19ء کے اختتام پر 13.28 ارب روپے تھے۔ خالص منافع کے علاوہ بورڈ کی آمدن میں بھی گزشتہ برس کی نسبت 108 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس نے رواں برس مختلف ذرائع سے 10.696 ارب روپے کمائے ہیں۔

مگر پی سی بی کے ناقدین کے لیے یہ اعدادوشمار متاثرکن نہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے کمائی کے ضمن میں گیم چینجر صرف پاکستان سپر لیگ ہے، جوسابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی تخلیق ہے اور تب سے ہی بورڈ کی آمدن کا بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

اس مضمون میں پرافٹ اردو نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے کاروباری معاملات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

پی سی بی کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے؟

 کرکٹ بورڈ کی کمائی کے دو بڑے ذرائع ہوتے ہیں۔ پہلا ذریعہ عالمی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ہے۔ آئی سی سی بین الاقوامی ٹورنامنٹس (کرکٹ ورلڈ کپ، ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور چیمپینز ٹرافی) منعقد کرواتا ہے جو دنیا بھر سے شائقین کرکٹ کو متوجہ کرتے ہیں، ان ٹورنامنٹس کے ذریعے آئی سی سی ٹکٹوں، نشریاتی حقوق اور سپانسرشپ ڈیلز کی بدولت اربوں ڈالر کماتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2015-23ء تک مختلف ایونٹس کی بدولت آئی سی سی کو تین ارب ڈالر کی آمدن متوقع ہے، یہ رقم بعد ازاں مختلف کرکٹ بورڈز میں تقسیم ہو گی، بڑے ممالک جہاں کرکٹ دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے جیسا کہ بھارت اور آسٹریلیا، ان کے کرکٹ بورڈز کو آئی سی سی زیادہ رقم دیتا ہے، فی الوقت آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کو سالانہ ایک کروڑ 65 لاکھ ڈالر مل رہے ہیں، یہ 2023ء ملتے رہیں گے۔

اس پیسے کے لیے پی سی بی مکمل طور پور آئی سی سی پر انحصار کرتا ہے، کسی بھی بورڈ کے لیے ذاتی کمائی کا مرکزی اور روایتی ذریعہ دوطرفہ کرکٹ سیریز ہے، مثال کے طور پر اس وقت پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، چونکہ اس دورے کی میزبانی نیوزی لینڈ کر رہا ہے لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ اس کے نشریاتی حقوق کے ذریعے کوئی کمائی نہیں کرسکتا اور اس ضمن میں تمام آمدن میزبان ملک کو ہی ملے گی،  کورونا وبا سے پہلے میچ ٹکٹ بھی میزبان ملک کے لیے کمائی کا ایک ذریعہ تھے۔

Can Someone Tell Wasim Khan to first take stance, then speak
وسیم خان، سی ای او پاکستان کرکٹ بورڈ

پاکستان نشریاتی حقوق سے تب پیسے کمائے گا جب یہ کسی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرے گا، جیسا کہ زمبابوے کا حالیہ دورہ یا پاکستان سپرلیگ کا تازہ ایڈیشن۔

پی سی بی کے سی ای او وسیم خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کرکٹ بورڈ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آمدن کے دو صرف ذرائع یعنی نشریاتی حقوق اور آئی سی سی سے ملنے والے فنڈز پر انحصار کا نتیجہ تھا، ہر بورڈ کی 20-30 فیصد آمدن آئی سی سی  سے ملنے والے فنڈز سے ہی ہوتی ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے ڈائریکٹر سپورٹس اور معروف کرکٹ شو کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیازی کہتے ہیں کہ آئی سی سی سالانہ پی سی بی کو ایک کروڑ 65 لاکھ ڈالر دیتا ہے جبکہ بورڈ خود سالانہ دو کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہوم ٹورز سے کماتا ہے جس کا زیادہ تر حصہ نشریاتی حقوق کی صورت میں ملتا ہے۔

آئی سی سی سے ملنے والے فنڈز کسی بھی بورڈ کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ بورڈ اپنی نشریاتی حقوق کی گیم کو بڑھائیں۔ پاکستن کرکٹ اس میدان مں بہت پیچھے ہے، نشریاتی معیار اور تکنیک موجودہ صدی کے مطابق نہیں، پاکستان کے ہوم میچز کو زیادہ ناظرین تک پہنچانے کے لیےعالمی نشریاتی اداروں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیاگیا، مقامی نشریاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کسی صورت بھی بہترین نہیں کہے جا سکتے، مگر یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پی سی بی نے خودانحصاری کے لیے بڑے اقدامات اٹھائے ہیں، اس نے براڈکاسٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے ایک قابل اور تخلیقی ٹیم تشکیل دی ہے اور یہ نشریات سے متعلق نئے معاہدات کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔

اس حوالےسے وسیم خان کہتے ہیں کہ ”ہم نے حال ہی میں پی ٹی وی کے ساتھ 20 کروڑ روپے کا معاہدہ کیا ہے، ہم تھرڈ پارٹی کے ذریعے اپنا مواد تیار کرکے پی ٹی وی کو نشر کرنے کے لیے دے رہے ہیں مگر یہ صرف مختصر مدت کے لیے ہے، ہم اس میدان میں طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔”

برطانیہ سے تعلیم یافتہ، نرم گو اور پی سی بی کے روایتی ماحول سے بہت مختلف سی ای او  وسیم خان بورڈ نے نزدیک بورڈ  کا استحکام سب سے اہم ہے، وہ پی سی بی کو نچلی سظح سے اٹھانا چاہتے ہیں، مگر اسے اصولوں سے عاری بھی نہیں چھوڑنا چاہتے، انہوں نے بتایا کہ ”اگلے پانچ سالوں میں ہم اپنا کانٹنٹ خود تیار کر رہے ہوں گے اور ہمیں تھرڈ پارٹی کی ضرورت نہیں رہے گی، ہمارے پاس صلاحیت کی کمی ہے لہٰذا ہم پی سی بی کے ملازمین کو تربیت فراہم کر رہے ہیں تاکہ تھرڈ پارٹی سے نجات حاصل کی جا سکے، ہمیں ایک مستحکم نظام چاہیے جس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پیسہ پاکستان میں ہی رہے۔”

پی ٹی وی کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سپرسپورٹس کے ساتھ بھی معاہدہ کر رکھا ہے، سپرسپورٹس جنوبی افریقہ کا نشریاتی ادارہ ہے جس نے پاکستان کے میچز اپنے نیٹ ورک پر دکھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، وسیم خان کے مطابق پی سی بی  دیگر نشریاتی اداروں جیسا کہ برطانیہ کے سکائی سپورٹس اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے  فوکس سپورٹس کے ساتھ بھی اس طرح کے معاہدے کرنے کے قریب ہے۔

مگر پی سی بی کے لیے یہ آمدن کے روایتی ذرائع ہیں، جب تک یہ آئی سی سی  سے ملنے والے فنڈز پر انحصار جاری رکھے گا، تب تک ایک آزاد بورڈ نہیں بن سکتا اور زیادہ پیسہ نہیں کما پائے گا۔ خاص طور پر بھارتی کرکٹ بورڈ کی طرح، جسے ناصرف آئی سی سی پر غلبہ حاصل ہے بلکہ یہ دو دیگر بڑے بورڈز یعنی آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر ایک طاقتور سہ فریقی اتحاد ترتیب دے چکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے آمدنی کے متنوع ذرائع تلاش کرنے اور آئی سی سی سے آزاد ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔

ہمہ وقت درپیش مشکلات 

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پی ٹی وی، سکائی سپورٹس اور سپرسپورٹس جیسے نشریاتی اداروں کے ستاھ جتنے مرضی معاہدے کر لے، جب تک بھارت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز نہیں کھیلتا تب تک ان معاہدوں کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوگی، سوا ارب آبادی والا ملک ہونے کے ناطے بھارت میں ٹیلی ویژن ناظرین کا حجم بہت بڑا ہے اور یہ چیز کسی بھی بورڈ کی آمدن کو فائدہ بھی پہنچا سکتی اور متاثر بھی کر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بورڈ یہ چاہتا ہے کہ بھارتی ٹیم ان کے ملک کا دورہ کرے تاکہ ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ ناظرین اپنی ٹیم کو کھیلتا دیکھیں اور وہ (بورڈ) نشریاتی حقوق کی مد میں اچھی آمدن کما سکے۔

پاکستان اور بھارت اب آئی سی سی ٹورنامنٹس میں ہی مدمقابل آتے ہیں، آخری مرتبہ دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ سیریز 2012ء میں کھیلی گئی تھی اور اس کی میزبانی بھارت نے کی تھی، پاکستان نے آخری مرتبہ بھارت کی میزبانی 2006ء میں کی تھی۔ بھارتی بورڈ نے ناظرین کی  زیادہ تعداد کا فائدہ اُٹھانے کے لیے اپنی کرکٹ پر کسی بھی ملک سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو کئی بہترین کھلاڑی ملے ہیں۔

Cricket Analyst Dr Nauman Niaz wins battle against Cancer, announces return to Pakistan ahead of World Cup
ڈاکٹر نعمان نیاز (کرکٹ تجزیہ کار)

پاکستان فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس حوالے سے بہت پیچھے ہے، اگرچہ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد متحدہ عرب امارات میں کروائی جانے والی ہوم سیریز کے نشریاتی حقوق کے ذریعے پی سی بی کمائی تو کرتا رہا ہے مگر پاکستان کے اندر سیریز کا انعقاد نہ ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ کرکٹ ایونٹس کی بدولت معیشت کے بہت سے پہیے چلتے ہیں۔

اس حوالے سے پی سی بی کے سی ای او وسیم خان کہتے ہیں کہ ”کرکٹ میچز کی وجہ سے ایک خاص قسم کا ماحول جنم لیتا ہے، جب یہ میچز اپنی سرزمین پر ہوتے ہیں تو اس ملکی معیشت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے، پاکستان کی آبادی 22 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر کرکٹ کے شیدائی ہیں، یہ لوگ کھیل دیکھنے آتے ہیں، شہروں میں ہوٹلوں کی بکنگ ہوتی ہے، ٹرانسپورٹ، ملبوسات اور سکیورٹی کا کاروبار چلتا ہے، ان تمام کاروباروں کا مرکز کرکٹ ہے۔”

انہی وجوہات کے باعث غیرملکی ٹیموں کی پاکستان آمد بہت اہمیت رکھتی ہے، ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے کہ آئی سی سی بھی پاکستان کا دورہ کرنے والے ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، پھر پی سی بی مسلسل پُرزور اصرار کے ساتھ دنیا کو باور کرواتا رہتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے لیے محفوظ ترین ملک ہے، البتہ پی سی بی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ پاکستان کے ایک محفوط ملک ہونے کے حوالے سے اس نے سخت مؤقف اپنایا رکھا ہے، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے جب اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے پر لیت و لعل کی تو چئیرمین پی سی بی احسان مانی نے کسی اور مقام پر دوطرفہ سیریز کے انعقاد کے امکان کو یکسر رد کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ اس سیریز کے تمام میچز صرف اور صرف پاکستان میں ہوں گے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ پی ایس ایل ہے، اس لیگ سے پی سی بی ناصرف نشریاتی حقوق کے ذریعے پیسہ کماتا ہے بلکہ اس فیس سے بھی آمدن ہوتی ہے جو فرنچائز مالکان پی سی بی کو ادا کرتے ہیں۔ پی ایس ایل کا مالی حجم 30 کروڑ ڈالر ہو گیا ہے اور یہ پچھلے سال کمائے گئے کل منافعے کے برابر ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر نعمان نیاز کہتے ہیں کہ ”پی سی بی کی زیادہ تر آمدن آئی سی سی سے ملنے والے فنڈز اور بیرونی دوروں سے ہوتی ہے جبکہ مزید کمائی پی ایس ایل کی فرنچائز فیس، پی ایس ایل میچوں کے دوران گراؤنڈ برانڈنگ، نشریاتی حقوق، پاکستان اور عالمی سطح پر استعمال کیےجانے والے  ڈیجیٹل کانٹینٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نعمان کے مطابق ’’پی سی بی میں کوئی کارپوریٹ انقلاب نہیں آیا البتہ اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پی ایس ایل بورڈ کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئی ہے اور اس کا طُرہ امتیاز بن چکی ہے، حتیٰ کہ یہ لوگ پی ایس ایل کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں، آمدن اور اخراجات کے فرق کے حوالے سے کوئی شفافیت نہیں پائی جاتی۔”

کیا پی سی بی تبدیل ہو گیا ہے؟

وسیم خان تنقید سے گبھراتے نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں آپ چالیس سالہ پرانی روایت کو راتوں رات تبدیل نہیں کر سکتے، پی سی بی کا تاثر بہت خراب تھا، یہ انہی قدامت پسند اداروں کی طرح بننے جا رہا تھا جن کا واحد مقصد ‘لڑکوں کو ملازمت دینا’ ہوتا ہے، یہی چیز ہم تبدیل کرنے جا رہے ہیں، “میرا کام ادارے کی بہتری ہے اور اس میں وقت لگتا ہے، قیادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ رہنمائی اور نگرانی میں توازن تلاش کیا جائے۔”

“ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ میڈیا براڈکاسٹنگ کی خراب صورت حال کے پیش نظر کمرشل ریونیو کی طرف زیادہ توجہ دی جائے، ہم نے پی سی بی کے تمام اثاثہ جات کی مالیت اور قابلیت کا جائزہ لیا ہے، ایسا بورڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے، ہم ان کی فروخت کے لیے مارکیٹ میں بھی گئے ہیں، جلد ایک عالمی برانڈ کے ساتھ معاہدے کا اعلان بھی کرنے والے ہیں، ہمارے ساتھ اشتراک کرنے کیلئے چار سپانسرز قطار میں ہیں۔”

2020 Pakistan Super League - Wikipedia

آمدن بڑھانے کے یہی کاروباری ذرائع ہیں، جیسا کہ پاکستان ٹیم دورہ نیوزی لینڈ پر ہے، چونکہ پاکستان کے پاس اس سیریز کے نشریاتی حقوق نہیں لہٰذا وہ اشتہارات کے ذریعے پیسہ نہیں کما سکتا، اس وقت ایزی پیسہ اور پیپسی پاکستانی ٹیم کو سپانسر کر رہے ہیں، کھلاڑیوں کی شرٹس پر ان دونوں برانڈز کے لوگو اکثر لگے ہوتے ہیں، یہ بھی بورڈ کیلئے کمائی کا بڑا ذریعہ ہیں، اگرچہ یہ پرانا طریقہ ہے مگر پی ایس ایل کی وجہ سے اس طرح کی برانڈنگ سے آمدن کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔

تاہم ڈاکٹر نعمان کے نزدیک پیسپی کے ساتھ ڈیل کا مطلب یہ ہے کہ پی سی بی پانچ سال قبل کی جگہ ہی کھڑا ہے، ”بورڈ کمرشل ڈیلز سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پا رہا، اگرچہ اس میں کافی امکانات موجود ہوتے ہیں مگر پھر بھی بورڈ اپنی لوگو ڈیل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔”

دراصل ڈاکٹر نعمان کا اشارہ اس جانب ہے کہ پی سی بی Gatorade کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہیں کر سکا اور اسے نئے سپانسر کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔  اسے پیپسی اور ایزی پیسہ کے ساتھ محض 20 کروڑ روپے کا معاہدہ کرنا پڑا، حالانکہ ماضی میں بورڈ گیٹو ریڈ اور دیگر سپورٹس برانڈز کے ساتھ ایک ارب 85 کروڑ روپے تک بھی معاہدے کرتا رہا ہے، اب بھی اسے ایک ارب روپے کی ڈیل کی امید تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے سپانسرشپ کے حصول میں مشکل پیش آئی اور بورڈ جیسے تیسے پیپسی سے سپانسرشپ حاصل کر سکا، ایک وقت پر تو یہ لگ رہا تھا کہ ٹیم اس بار شرٹس پر بغیر کسی سپانسرڈ لوگو کے کھیلے گی، یہ امر شرمندگی کا باعث بن سکتا تھا۔

پی سی بی کے موجودہ سی ای او کی توجہ بورڈ کے کاروبار کو بڑھانے، آئی سی سی اور نشریاتی حقوق کی آمدن پر انحصار کم کرنے پر مرکوز ہے تاکہ روایتی ذرائع سے ہٹ کر بھی آمدنی کے آزاد ذرائع تلاش کیے جا سکیں۔اس حوالے سے وسیم خان کہتے ہیں ”ہماری حکمت عملی کام کر رہی ہے، بورڈ کے مالیاتی ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، ہمارے پانچ سالہ منصوبے کی بدولت بہت ساری چیزیں درست سمت میں آ جائیں گی، ساری توجہ مقدار کے بجائے معیار پر ہے۔”

مجموعی طور پر پی سی بی کا کلچر بدل چکا ہے، بورڈ پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے کافی کام کیا گیا ہے، اس کی میڈیا ٹیم ہمہ جہت اور انتھک کوششوں کے ذریعے خراب ہو جانے والے تاثر کو درست کرنے میں لگی ہے، اس کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس ہو رہی تھی خاص کر 2010ء کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد سے۔

وسیم خان کا پانچ سالہ منصوبہ اس تبدیلی کی علامت ہے جو وہ بورڈ میں لانے کیلئے کوشاں ہیں، مگر کیا اس سے کرکٹ اور کرکٹرز کے لیے چیزیں بہتر ہوئی ہیں؟

کیا کھلاڑیوں اور کھیل کو فائدہ ہو رہا ہے؟

واضح رہے کہ پی سی بی کوئی کارپوریشن نہیں، یہ اپنے شراکت داروں کو منافع میں سے حصہ دیتا ہے اور نہ ہی اعلی افسران کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے، بورڈ کی ساری کمائی اس کے اپنے خزانے میں جاتی ہے۔

وسیم خان کہتے ہیں کہ آخرکار عوام نے انہیں پانچ سالہ منصوبے یا پاور پوائنٹ پریزینٹیشز سے نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر پرکھنا ہے اور صرف مالی کارکردگی نہیں بلکہ میدان میں کارکردگی کو بھی دیکھا جائے گا۔

یہی ہم چاہتے ہیں کہ پی سی بہترین کاروبار کرے کیونکہ زیادہ پیسہ کمانے کا یہی ایک راستہ ہے، پھر اس پیسے کو کرکٹ اور کرکٹرز خرچ کیا جا سکے گا۔

کرکٹ کے تین مختلف فارمیٹس ہیں، ٹیسٹ کرکٹ، ٹی ٹونٹی اور پچاس اوورز کے ایک روزہ میچز۔ مقامی طور پر کھلاڑیوں کو کلب کی سطح سے محنت کرکے فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچنا پڑتا ہے جو مقامی سطح  پر مسابقت کا سب سے بڑا درجہ ہے، یہیں سے کھلاڑیوں کو غیرملکی میچز کے لیے چُنا جاتا ہے۔ زیادہ تر کھلاڑی فرسٹ کلاس کرکٹ سے آگے نہیں جا پاتے، اگر کوئی آگے نکل بھی جائے تو اتنے انٹرنیشنل میچز نہیں کھیل پاتا کہ زندگی آسای سے گزر سکے، لہٰذا یہ ضرور ی ہے کہ فرسٹ کلاس کی سطح پر کھلاڑیوں کو اچھی آمدنی فراہم  کی جائے تاکہ وہ اپنے کھیل پر توجہ دے سکیں اور انہیں گزر بسر کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں نہ کرنی پڑیں۔

آج کل عالمی سطح پر کھیلوں کے مقابلے مزید سخت ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ قدرے سست رفتار کرکٹ بھی اَب عزم اور پیشہ ورانہ رویے کا متقاضی ہے، کچھ سال قبل تک فرسٹ کلاس کرکٹ کے میچز کو مختلف ڈیپارٹمنٹس کی پشت پناہی حاصل تھی جیسے کہ بینک، فضائی کمپنیاں، ریلوے، واپڈا، سوئی گیس اور دیگر اداروں کی ٹیمیں تھیں اور ان کے میچز ہوتے تھے، یہ ڈیپارٹمنٹس کھلاڑیوں کو مستحکم ملازمت، تنخواہ، پنشن اور یہاں تک کہ بعد از ریٹائرمنٹ بھی ملازمت فراہم کرتے تھے۔

اپنے پانچ سالہ اصلاحاتی منصوبے کے تحت پی سی بی نے درجنوں ڈیپارٹمنٹس ختم کر دیے ہیں، فرسٹ کلاس کرکٹ کو چھ ریجنز (سنٹرل پنجاب، ساؤتھ پنجاب، ناردرن، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ) تک محدود کر دیا ہے، یہ چھ ریجنز کھلاڑیوں کو چن کر تینوں فارمیٹس کے ٹورنامنٹس میں مقابلہ کرتے ہیں۔ فرسٹ کلاس میں اس اصلاح سے پی سی بی کو پیسے کی جو بچت ہوئی ہے اسے بہتر کوچز، سہولیات، پچز کی تیاری، سامان کی فراہمی اور بہتر مقابلوں کے انعقاد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، اس اصلاح کی بدولت پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ پہلے سے زیادہ مسابقتی ہو گئی ہے مگر کیا یہ کھلاڑیوں کے لیے بہتر ہے؟

یاد رہے کہ تمام کھلاڑی تینوں فارمیٹس نہیں کھیلتے، اور اگر کھیلتے بھی  ہوں تو تمام کھلاری ہر گیم میں موجود نہیں ہوتے۔ کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق نئے ریجنل سٹرکچر کے مطابق تمام فرسٹ کلاس کرکٹرز کو ماہانہ 50 ہزار روپے ملیں گے، اس کے علاوہ قائداعظم ٹرافی میں انہیں 75 ہزار روپے میچ فیس، پاکستان کپ میں 40 ہزار روپے میچ فیس اور نیشنل ٹی ٹونٹی میں 30 ہزار روپے میچ  فیس ملے گی، اس کے علاوہ میچز کے دوران کھلاڑیوں کو 2500 روپے یومیہ بھی ملیں گے۔

لہٰذا اگر ایک کھلاڑی سال میں قائداعظم ٹرافی کے تمام دس گروپ میچز، پاکستان کپ اور نیشنل ٹی ٹونٹی کے پانچ پانچ میچ کھیلیں تو وہ اندازاََ 18 لاکھ روپے کما سکتا ہے۔ اس میں اگر انعامی رقوم کو بھی شامل  کر لیا جائے تو یہ رقم 20 لاکھ روپے بھی ہو سکتی ہے، مگر یہ تبھی ممکن ہے جب کھلاڑی کو تمام فارمیٹس کے لیے چنا جائے اور وہ زیادہ سے زیادہ میچ کھیل سکے۔ لہٰذا اگر آپ ایک سال میں ڈومیسٹک سطح پر کھیلے جانے والے تینوں فارمیٹس کے تمام میچز کھلیتے ہیں تو آپ کی سالانہ آمدن 20 لاکھ روپے یعنی ماہانہ ایک لاکھ 66 ہزار 666 روپے بنتی ہے۔  مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی سی بی نے اتنی رقم صرف قائداعظم ٹرافی کے لوگوز بنوانے پر خرچ کر دی ہے۔

آخری مقصد میدان میں جیت ہے، اس کے لیے زیادہ مسابقتی کرکٹ کی ضرورت ہے لیکن کیا ایسا کھلاڑیوں کی روزی کی قیمت پر ہونا چاہیے؟ فرسٹ کلاس کرکٹرز کو اس سے بہتر معاوضہ ملنا چاہیے جتنا انھیں ابھی مل رہا ہے۔

وسیم خان  کے نزدیک اس ضمن میں کچھ کلیدی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ بورڈ کو ایک موثر اور شاندار ادارہ بنایا جائے گا۔ ”ٹیموں کی تعداد میں کمی اور ریجنل کرکٹ پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے گزشتہ برس پی سی بی نے ماضی کی نسبت اربوں روپے کم خرچ کیے۔‘‘

پاکستان کے لیے کرکٹ بے حد اہم ہے، جن ممالک میں انگریزوں نے کرکٹ کی وراثت چھوڑی وہاں یہ کھیل اب اقوام کو باہم جوڑنے کا کام کر رہا ہے، بھارت تو اپنی شناخت ہی کرکٹ سے کراتا ہے۔ 1992ء اور 1996ء کے ورلڈ کپ کی جیت پاکستان اور سری لنکا کے لیے یادگار بن چکی ہے، بنگلہ دیش نے کرکٹ کے توسط سے اپنی آزادی قائم رکھی ہے، کئی دہائیوں تک ویسٹ انڈیز نے کرکٹ کے ذریعے انقلابات کا مقابلہ کیا، سر ویوین رچرڈز جیسے کھلاڑی عوامی تخیل میں حیرت انگیز شخصیت بن گئے۔

کچھ پی سی بی کے دفاع میں 

ہمارے قارئین کی توجہ ایک بار پھر ان تبدیلیوں کی جانب مبذول کروانا بہت ضروری ہے جو پی سی بی میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ پی سی بی کی خواہش ملک میں کرکٹ کو بہتر کرنا ہے، ہم نے پی سی بی میں ہونے والے اصلاحات سے فرسٹ کلاس کرکٹرز پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کیا ہے مگر پی سی بی اپنے ارادے میں پکا ہے۔

پاکستان دنیائے کرکٹ کا واحد ملک ہے جس نے کورونا وبا کے باوجود مکمل ڈومیسٹک سیزن کا انعقاد کیا جس کی وجہ سے کھلاڑی ایکٹیو رہے اور انہیں پیسے کمانے کا موقع بھی ملا۔ ملتوی ہونے والا پی ایس ایل بھی کراچی کنگز کی فتح کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے، اس سے پہلے زمبابوے کی ٹیم پاکستان کا دورہ کر چکی  اور دورہ انگلینڈ کے بعد پاکستانی ٹیم اب دوطرفہ سیریز کے لیے نیوزی لینڈ میں موجود ہے۔

ڈومیسٹک کرکٹ سے پی سی بی کو کبھی زیادہ آمدن نہیں ہو گی، یہ بہت مہنگی ہے، اور کورونا ایس او پیز کی وجہ سے یہ مزید مہنگی ہو چکی ہے، یہ بات وسیم خان بھی تسلیم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ”رواں مالی سال کی فنانشل سٹیٹمنٹ کچھ اچھی نہیں، سب کچھ کورونا وائرس کی وجہ سے ہو رہا ہے، ڈومیسٹک کرکٹرز کو فور سٹار ہوٹلز میں ٹھہرا رہے ہیں، دو ہزار کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں، ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ فرسٹ کلاس کرکٹ انٹرنیشنل کرکٹ کی پائپ لائن ہے اور اگر ہم اس درجے پر کھلاڑیوں پر پیسہ لگائیں گے تو ہمیں اچھے کھلاڑی ملیں گے، میں اس چیز کو خرچہ نہیں سمجھتا، یہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ یہ کھلاڑی ہمارا سرمایہ ہیں۔”

اگرچہ ڈاکٹر نعمان نیاز کا یہ کہنا ہے کہ پی سی بی کا کلچر تبدیل نہیں ہوا، یا یہ عمل سست روی کا شکار ہے، پھر بھی نتائج ظاہر ہو چکے ہیں، گو کہ یہ بہت متاثر کن نہیں۔ مگر وسیم خان پی سی بی کے پرانے تاثر سے جان چھڑانے پر خوش ہیں، اگر مخلصانہ کاوشیں جاری رہیں تو پاکستان کرکٹ آنے والے کئی سالوں تک وسیم خان کی مقروض رہے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here