مودی سرکار احتجاجی کسانوں کے سامنے بےبس، متنازع قوانین واپس لینے کا فیصلہ

818

نئی دہلی: مودی حکومت کسانوں کی ‘دہلی چلو’ مہم کے باعث گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور اپنی ’زرعی اصلاحات‘ میں کچھ تبدیلیوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔

بھارتی حکومت نے رواں سال ستمبر میں زرعی قوانین متعارف کرائے تھے، ان قوانین کے تحت مصنوعات کی خریداری کے پرانے طریقہ کار کو ختم کرکے کاشت کاروں کو ان کی اجناس بیچنے کے لیے کئی آپشنز دیے گئے تھے۔

ان تین متنازع قوانین کے خلاف دہلی کے اطراف میں لاکھوں کسان اور مزدور کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں اور متنازع قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ستمبر میں کی گئی زرعی قانون سازی سے کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے دہائیوں پرانی غلہ منڈیاں ختم ہو جائیں گی اور حکومت کم قیمت پر گندم اور چاول کی خریداری کر کے کسانوں کو نجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی۔

بھارتی حکومت کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ “حکومت زرعی قوانین میں مختلف ترامیم کرنے کیلئے تیار ہے”۔

انہوں نے کہا کہ فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان تنازع کی صورت میں کسانوں کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق دینے کو بھی تیار ہے۔

دیگر دو سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ مودی حکومت مذکورہ قوانین میں کسی قدر نرمی کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن حکومتی ترجمان اس بارے بات کرنے کیلئے دستیاب نہیں تھے۔

تاہم کسانوں کی جانب سے سرکاری حکام کی ان تجاویز پر فوری طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا لیکن کسانوں کی رہنما کیویتھا گروگانتی نے رائٹرز کو بتایا کہ ابھی تک حکومت کسانوں کے مطالبات ماننے کے لیے رضامند نہیں ہوئی۔

انہوں نے حکومت سے قوانین واپس لینے اور اجناس کی خریداری کے پرانے طریقہ کار کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نجی منڈیوں میں بھی وہی ٹیکس لاگو ہونے چاہیں جیسے سرکاری منڈیوں میں لاگو ہیں۔

فارمرز پروڈیوس اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسیلٹیشن) ایکٹ کے نئے قانون کے تحت نجی خریداروں کو ریٹیل مارکیٹ قائم کرنے کی اجازت ہو گی جہاں ادائیگیوں کے دوران کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔

غلہ پیدا کرنے والی ہریانہ اور پنجاب کی ریاستوں سے لاکھوں کسانوں کی جانب سے احتجاج جاری ہے جو مودی حکومت کے لیے زرعی شعبے میں اصلاحات لانے کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔

بھارت کی 2.9 کھرب ڈالر کی معیشت میں زرعی شعبہ کا حصہ 15 فیصد ہے اور کروڑوں افراد کا روزگار زراعت سے وابسطہ ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here