اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت امیر اور غریب اقوام کے معیار زندگی میں فرق کو مزید بڑھا دے گی۔
آئی ایم ایف نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، روبوٹس ، وسیع اعدادوشمار پر مبنی ڈیٹا اور نیٹ ورکس کی سہولیات ایک طرف پیداواری عمل میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ترقی پذیر معیشتوں پر بھی بعض بڑے اثرات کا سبب بن رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
50 ہزار نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، کلائوڈ کمپیوٹنگ کی تربیت دینے کا ہدف
کورونا، روبوٹس کے کام میں اضافہ، جاپانی کمپنی نے انشورنس متعارف کروا دی
کورونا کے اثرات : اگلے پانچ سالوں میں انسانوں کی کروڑوں نوکریاں روبوٹس کے پاس ہونگی
امریکا اور چین جیسے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میں اقتصادی شرح نمو کے مواقع اور وسائل سے استفادہ کی استعداد کمبوڈیا اور تنزانیہ سے مختلف ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معاشی ترقی کے عمل میں جن مسائل کا سامنا کیا تھا آج کی ترقی پذیر اور غریب دنیا اب ان مشکلات سے گزر رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آٹومیشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور جدید ٹیکنالوجیز سے استفادہ کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جبکہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح کم ہونے کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
اس کے باعث ترقی پذیر ممالک میں روزگار پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کے کارکنوں کو غریب ممالک کے کارکن پر مہارتوں کے حوالے سے برتری حاصل ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے ترقی پذیر ممالک کے پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کی اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لئے پیداوار میں اضافہ اور ورکرز کی مہارتوں اور ہنرمندی کے فروغ کے لئے اقدامات کریں۔