اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی جیبیں بھرنے کے لئے توانائی کے مہنگے معاہدے کئے، نندی پور پاور پراجیکٹ میں قوم کو 80 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔
گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے وفاقی وزیر عمر ایوب نے کہا کہ سابق حکومت بارودی سرنگیں بچھا کر گئی تاکہ آنے والی حکومت کے لئے دشواریاں پیدا ہوں، انہوں نے اس کے لئے ملک کے مستقبل کو بھی داﺅ پر لگا دیا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے منصوبوں کے بارے میں بڑی باتیں کی جاتی ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کس قیمت پر لگائے گئے، یہ فراڈ کی ایک داستان ہے، نندی پور پاور پراجیکٹ میں 80 ارب روپے کا ٹیکا مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قوم کو لگایا۔
عمر ایوب خان کے بقول پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کو جو رقم دینا تھی وہ نندی پاور پروجیکٹ کی انتظامیہ نے پی ایس او کو دی ہی نہیں اور دوسری مد میں خرچ کر دی، اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کی گئیں جس میں یہ انکشاف ہوا کہ پی ایس او کے اکاﺅنٹ پر سابق حکمرانوں نے ڈاکا مارا، ایف آئی اے کو کیس ہم نے بھیج دیا ہے تاکہ وہ تحقیقات کرے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ 70 فیصد توانائی درآمدی ایندھن پر منتقل کر دی گئی تھی، 14 ارب ڈالر تیل و گیس درآمد کرنے پر ہم خرچ کرتے ہیں، سابق حکومت نے تقریبا 4 ہزار میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی کٹوتی کر دی اور مہنگے منصوبے لگائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ان منصوبوں کو پھر بحال کیا ہے اور ہم قابل تجدید توانائی پالیسی لائے ہیں، سولر کے منصوبے 24 روپے فی یونٹ کے تھے، اب ہمارے دور میں وہی منصوبے 6 روپے فی یونٹ پر آ گئے ہیں، یہ منصوبے صاف شفاف طریقے سے ہم نے شروع کئے ہیں اور ماضی کے مسائل ختم کئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
مہنگائی کا ایک اور جھٹکا، حکومت نے ایل پی جی مہنگی کردی
گردشی قرضہ کیا ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
پٹرولیم ڈویژن کا ایک کھرب سے زائد گردشی قرضہ، ای سی سی نے کمیٹی بنا دی
حکومتی دعوئوں کے برعکس پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.3 کھرب تک جا پہنچا
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں تھرکول موجود ہے لیکن یہاں پر درآمدی کوئلے کا منصوبہ اس علاقہ میں لگایا گیا جہاں پر ذرخیز زمین موجود ہے، کئی پلانٹس کی قیمت تو 30 فیصد تک زیادہ تھی، اپ فرنٹ ٹیرف دس سال تک کر دیا جس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کیونکہ مختلف لوگوں کے مفادات وابستہ تھے، اپنے مفادات کی خاطر قوم کا مستقبل گروی رکھ دیا اور اپنے آدھے پاﺅ گوشت کے لئے پوری بھینس ذبح کر دی، یہ وہ غلط معاہدے ہیں جن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور دوبارہ ان کمپنیوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
عمر ایوب کے مطابق سابق حکومت کے نمائندے ٹیرف اور گردشی قرضے کی باتیں کرتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دور میں ٹیرف ڈیڑھ پونے دو سال تک بڑھایا ہی نہیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ الیکشن کے بعد اگلی حکومت یہ ٹیرف بڑھائے، جہاں پر بجلی چوری ہوتی تھی وہاں انہوں نے کھلی بجلی دی تاکہ انہیں چند ووٹ ملیں لیکن لوگوں نے ان تمام معاملات کو دیکھا اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن سسٹم پر بھی توجہ نہیں دی گئی، تحریک انصاف کی حکومت نے دو سال میں 47 ارب روپے 220 کے وی اور 500 کے وی کے سسٹم پر خرچ کر کے چار ہزار 275 میگاواٹ مزید بجلی بھی سسٹم میں شامل کی ہے۔
عمر ایوب خان نے کہا کہ اسی وجہ سے پچھلے موسم گرما میں ہماری بجلی کی ترسیل کی صلاحیت 24 ہزار 500 میگاواٹ تک پہنچ گئی اور یہ بجلی فراہم کرتے رہے ہیں، جنوبی بلوچستان کے لئے پیکج دیا اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے لئے بھی شمسی توانائی کی فراہمی پر کام ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے صنعتوں کے لئے پیکج دیا، پیک اور آف پیک آور ختم کئے ہیں جو انڈسٹری اضافی بجلی استعمال کرے گی، اس پر بھی یونٹ 8 روپے کا ہو گا، ماضی میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پرانے پلانٹس کو بند کرنے جا رہے ہیں، اس سے اربوں روپے کی بچت ہو گی، حکومتی پلانٹس کے بھی مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں، آر ایف او کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا جاتا ہے، مسلم لیگ (ن) کے آخری سال میں 38 فیصد فیول مکس آر ایف او پر چلایا گیا جبکہ موجودہ حکومت نے صرف چار فیصد آر ایف او پر چلایا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ کووڈ سے پہلے 14 ارب روپے ماہانہ پر لے آئے تھے لیکن اس کے بعد بلوں میں صارفین کو ریلیف دیا گیا، سابق حکومت نے اپنے آخری سال میں بجلی کا ٹیرف نہیں بڑھایا اور گردشی قرضہ 435 ارب روپے تک بڑھا دیا، موسم گرما میں بجلی کی طلب 25 سے 26 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ سردیوں میں یہ آٹھ ہزار تک ہوتی ہے۔
سابق حکومت گیس سیکٹر میں 300 ارب کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی
اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ ایک ہزار ارب روپے کی گیس کا گردشی قرضہ بننے کی بات کی گئی ہے لیکن سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ ان کی حکومت پانچ سال میں 300 ارب روپے کا گیس کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی، اس کے علاوہ بجلی کے شعبے نے گیس کمپنیوں کو اگر کوئی رقم ادا کرنی ہے تو وہ اس سے الگ ہے اور اوگرا کے تعین کرنے کے باوجود نوٹیفائی نہیں کیا، موجودہ حکومت نے مشکل فیصلہ کر کے گیس کی قیمت بڑھائی۔
انہوں نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل کے ساتھ سٹوریج کا انتظام ضروری ہوتا ہے، سابق حکومت نے فکسڈ پیمنٹ پر ایل این جی ٹرمینل بنائے لیکن سٹوریج کا انتظام نہ کیا جس کے لئے 5 لاکھ ڈالر سے زائد یومیہ کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے چاہے ایل این جی استعمال کریں یا نہ کریں، اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک شپ آئے گا اور اس کی گیس استعمال ہو گی تو پھر اگلی آ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت شمال جنوب گیس پائپ لائن کے ساتھ سٹوریج کا بھی انتظام کر رہی ہے، نجی شعبے کو پیش کش کی ہے کہ وہ ایل این جی ٹرمینل لگائے جس طرح پرانے دو ٹرمینل لگائے گئے تھے اس طرح ہم ٹرمینل نہیں لگا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 27 ماہ میں 9 ماہ ایسے تھے جب ہم نے 800 ایم ایم سی ایف ڈی سے کم ایل این جی فروخت کی اور سابق حکومت کے غلط فیصلوں سے بہت زیادہ پیسہ ضائع ہوا، ہم سابق حکومت کے طریقہ کار کے مطابق ٹرمینل نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ قوم کے پیسے پر ڈاکا ہے اور ان پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑتا ہے۔