سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پاکستان میں کم و بیش ایک دہائی مکمل کر چکی ہے اور اسے تقریباََ پچاس لاکھ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے، کنیکیٹ ایڈز (Connect Ads) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی ٹویٹر صارفین میں سے صرف 29 فیصد خواتین اس ایپ کی استعمال کنندہ ہیں، کل پاکستانی صارفین میں سے31 فیصد کی عمر 18 سال سے 24 سال کے درمیان، 39 فیصد کی عمر 25 سال سے 34 سال کے درمیان اور محض 30 فیصد ایسے ہیں جن کی عمر 35 سال سے زیادہ ہے۔
سینسر ٹاور کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر پاکستان میں ایپل سٹور میں ٹاپ 25 جب کہ گوگل پلے سٹور میں ٹاپ 100 ایپس میں شامل ہے، پاکستان واحد ملک ہے جہاں پلے سٹور پر ٹوئٹر کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے، تاہم دونوں ایپ سٹورز پر یہ ریڈ اٹ (Reddit)، ڈان نیوز ، Quora اور یہاں تک کہ گوگل نیوز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خبروں کی کیٹگری میں نمبر ون پر براجمان ہے، اس کے نتیجے میں اسے ایک خاص قسم کی ایپ تصور کیا جاتا ہے جس طرح ڈان نیوز بہتر سرکولیشن ( صارفین) کی بنا پر اُردو اخباروں کی ہی طرح کے ریٹ لینے کے قابل ہو چکا ہے۔
اشتہارات اور میڈیا کمپنیوں کے عہدیداران کے مطابق ٹوئٹر کو پاکستان میں پڑھے لکھے افراد اور امیروں کے تصرف کا پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد انتہائی اہم موضوعات پر گفتگو اور اثرانداز ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔
گروپ ایم کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نوید اصغر کہتے ہیں کہ “ٹوئٹر کے صارفین خاص قسم کے ہیں، اسے استعمال کرنے والے زیادہ تر افراد، جو رائے عامہ پراثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کا تعلق اُس طبقے سے ہے جسے تعلیم یافتہ اور صاحب الرائے سمجھا جاتا ہے، مگر ٹویٹر کسی بھی دوسرے پلیٹ فارم کی نسبت کسی بھی اہم موضوع کو واضح کرنے اور اس بارے میں توجہ دلانے میں بلاشبہ زیادہ مؤثر ہے اور یہی چیز ہے جس کوئی برانڈز اپنی مخصوص ضروریات پوری کر سکتا ہے۔”
گوگل ٹرینڈز کے مطابق پاکستان میں ٹوئٹر کی مقبولیت مئی 2010ء میں فیس بُک کے ساتھ بڑھنا شروع ہوئی اور ستمبر 2014ء تک اپنی انتہا کو پہنچ گئی مگر اس کے بعد سے اس کی مقبولیت میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہو رہی ہے۔
کنیکٹ ایڈز کے سابقہ ہیڈ آف سیلز نبیل خان نے پرافٹ کو بتایا کہ 2012ء میں پاکستان میں ٹوئٹر صارفین کی تعداد سات لاکھ تھی اور اب پچاس لاکھ ہے، اس کے مقابلے میں فیس بُک کے اپنے ایڈورٹائزنگ ٹول کے مطابق اس کے صارفین کی تعداد چار کروڑ جبکہ چین کی ویڈیو شئیرنگ ایپ ‘ٹک ٹاک’ کے صارفین کی تعداد تین کروڑ ہے۔
پرافٹ کی جانب سے جائزہ لیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ ٹوئٹر نے اپنے پاکستانی صارفین کو اُن کی دلچسپی کی بنا پر مختلف گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یہ گروہ بندی ادب، صحت، فیشن، فٹنس، سینما، میوزک، سرمایہ کاری، آٹو موبیل، کھانے اور گیمنگ کی طرف رجحانات رکھنے کی بنا پر کی گئی ہے۔
ٹک ٹاک کے برعکس ٹوئٹر کے صارفین کو اپنا اظہار محدود الفاظ میں کرنا ہوتا ہے اور انہیں کوئی بصری ٹولز میسر نہیں ہوتے لہٰذا ٹک ٹاک کی طرف پاکستانیوں کا زیادہ رُجحان سمجھ میں آتا ہے۔
مگر ٹوئٹر کی سست رفتار ترقی کنیکٹ ایڈز، جو MENAP ریجن بشمول ترکی اور اٹلی میں ٹوئٹر کا سیلز پارٹنر ہے، کی راہ کی رُکاوٹ نہیں بنی، قراۃ العین راشد کنیکٹ ایڈز میں ٹوئٹر کی کلائنٹ پارٹنر ہیں، انہوں نے بتایا کہ سٹار کوم، آئی او ڈیجیٹل، سینائٹ ڈیجیٹل، او ایم ڈی اور مائنڈ شئیر جیسی ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اب اپنی اشتہاری مہم کو زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ٹوئٹر کا رُخ کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلی نار، حبیب بنک لمیٹڈ، یونی لیور، سام سنگ، پیپسی کو، کے ایف سی، ہواوے، چائنہ موبائل پاکستان اور اینگرو سمیت کئی اور کمپنیاں اب ٹوئٹر پر اشتہارات دے رہی ہیں۔
2015ء میں ٹیلی نار پاکستان نے ٹوئٹر پر ایک برانڈڈ ایموجی کے لیے پچاس ہزار ڈالر خرچ کرکے پاکستان کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ میں ہلچل پیدا کر دی تھی، یہ ایموجی ٹیلی نار نے رمضان کریم کے دوران ‘share your meal’ نامی مہم کیلئے استعمال کی تھی، بعد میں دیگر برانٖڈز نے بھی اسی طریقہ کار کو استعمال کیا، ٹوئٹر کے 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس مہم نے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ امپریشنز، 36 لاکھ ویڈیو ویوز اور چھ لاکھ سے زائد انگیجمنٹس حاصل کیں۔
ٹیلی نار پاکستان میں یوتھ سیگمنٹ کے برانڈ مینیجر یاسر یاسین نے اس حوالے سے پرافٹ کو بتایا کہ #ShareYourMeal ٹیلی نار پاکستان کا مسلسل بڑھتا ہوا پلیٹ فارم ہے اور اسے کمپنی کی بنیادی حکمت عملی کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔
اسی قسم کی دوسری نمایاں مہمات میں سے ایک Lay’s پاکستان کی ‘ہم سب کا فیورٹ’ مہم تھی جس میں مائنڈ شئیر نے ‘ٹویٹ ٹو اَن لاک’ پروڈکٹ کا طریقہ کار اپنایا تھا اور اس میں فواد خان کو بطور برانڈ ایمبیسڈر پیش کیا تھا۔
اس کے علاوہ Knorr پاکستان کیلئے مائنڈ شئیر نے ’ایک ضروری بات‘ کے نام سے 2018ء میں ایک ایڈورٹائزنگ کمپین چلائی تھی جس میں بچوں کی حفاظت بارے بات کی گئی تھی، اس مہم کی پہنچ اور انگیجمنٹ بڑھانے کے لیے برانڈ ایمبیسڈرز کو وائٹ لسٹ اور کمپین کے کانٹیٹ کو نمایاں کیا گیا تھا۔
Z2C لمیٹڈ کے چیئرمین ریحان مرچنٹ کہتے ہیں کہ ٹویٹر زیادہ پیسہ خرچ کرنے والوں کیلئیے بہترن پلیٹ فارم ہے، یہ قلیل مدت میں رقم بچانے کے حوالے سے شائد اچھا نہ ہو مگرکانٹینٹ کی درست حکمت عملی کی بنا پر طویل مدت میں ٹوئٹر پر اشتہارات کی مد میں کی گئی سرمایہ کاری پر کافی فائدہ ہو سکتا ہے، ہائی ویلیو مصنوعات کو بھی اس پلیٹ فارم سے خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔
بلٹز ایڈورٹائزنگ کے چیف آپریٹنگ آفیسرعمیر سعید کے مطابق گزرے وقتوں میں ڈان اخبار کی سرکولیشن روزنامہ جنگ کی نسبت کم تھی مگر بڑا اخبار اور پالیسی میکرز میں ہونے کی وجہ سے ڈان اشتہاروں کی مد میں اتنے ہی پیسے لیتا تھا جتنے روزنامہ جنگ۔
’جب آپ ایک ایسی اشتہاری مہم کر رہے ہوں جس کے لیے کسی اثرورسوخ کی ضرورت ہو، جیسا کہ کسی پالیسی میکر یا لابنگ کی مدددرکار ہو، تو اس کے لیے ٹوئٹر بہترین آپشن ہے۔‘
پاکستان میں فیس بُک کے مقابلے میں ٹویٹر کے پاس صرف دس فیصد صارفین ہیں، 75 فیصد میڈیا انڈسٹری میڈیا ایگزیکٹوز کے ہاتھ میں ہے، اس کے باوجود ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اشتہاراتی مہم کے لیے ٹویٹر کا رُخ کیوں کریں؟ پرافٹ نے چند بڑی اشتہاراتی ایجنیسوں اور برانڈز کے میڈیا پروفیشنلز سے بات کی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو براہ راست انگیجمنٹ کی راہ میں رُکاوٹ ہیں۔
بڑے پلیٹ فارم کی کشش
مشتہرین ایک ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں جس پر ایک مخصوص قسم کی چھاپ نہ ہو، کسی مخصوص جانب جھکائو کے حامل پلیٹ فارم پر اشتہاراتی مہم چلانا کم فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔
اس حوالے سے نوید اصغر کہتے ہیں ہر پلیٹ فارم کو چاہیے کہ وہ کسی برانڈ کی مخصوص ضروریات کا احترام کرے، اکثر برانڈز اور مہمات کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے مگر پاکستانی مارکیٹ میں ابھی زیادہ نہ سرایت کر پانے کی بنا پر ٹویٹر پر یہ ممکن نہیں ہے جب کہ ٹویٹر کے مقابلے میں یوٹیوب اور فیس بُک جیسے پلیٹ فارم اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔
پرافٹ سے گفتگو میں میڈیا پلینرز نے بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچنے کے بجائے اپنے مطلوبہ افراد تک پہنچنے کے حوالے سے مشکلات کا ذکر بھی کیا، انہوں نے بتایا مشتہرین ایسے پلیٹ فارم کو پسند کرتے ہیں جو ان کا پیغام واضح طور پر مطلوبہ لوگوں (target audience) تک پہنچائے۔
پرافٹ ہی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مشتہرین محض ڈیجیٹل ٹریفک کے اعدادوشمار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے کہ یہ ٹریفک کتنی متعلقہ اور مطلوبہ ہے۔
ریحان مرچنٹ کے مطابق پاکستان میں مشتہرین کمیونی کیشن کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں، بڑی آڈینس اور محفوظ کانٹینٹ کو کسی بھی اشتہاری مہم کی کارکردگی جاننے کا پیمانہ مانا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک خاص قسم کے پلیٹ فارم کو یہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تخلیق کاری
مارک لائن کمیونی کیشنز کی ڈائریکٹر آف سٹریٹیجی اینڈ ڈیزائن سحر راٹھور کے مطابق ٹوئٹر پر فیس بک اور انسٹا گرام کی طرح انگیجمنٹ کے لیے زیادہ تخلیقی آپشنز نہیں ہیں، یہ پلیٹ فارم صرف بات چیت، جوابات کے لحاظ سے اہم ٹویٹ تھریڈز پر مشتمل ہے، تاہم ایک چیز جو اسے ممتاز بناتی ہے وہ ٹوئٹر پولز ہیں جن کا استعمال کرتے ہوئے ہم لوگوں سے چار آپشنز پر مشتمل سوالات پوچھ سکتے ہیں، یہ طریقہ آڈینس کے ساتھ انگیج کرنے کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ سادہ اور آسان ہے، اس کے علاوہ لوگ چھوٹے موٹے موضوعات پر بھی مضبوط دلائل کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار دیگر میڈیا پلانرز نے بھی کیا، ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر پر اشتہارات کے فارمیٹ کے حوالے سے اتنی وُسعت نہیں ہے جتنی فیس بک اور گوگل پر ہے لہٰذا اسے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
WeUno Agency کی ڈیجیٹل مارکیٹ مینیجر سندس شاہد کا کہنا تھا کہ اگر کسی برانڈ کے پاس اینگیجمنٹ کا بہترین آئیڈیا ہو اور وہ فوری توجہ چاہتا ہو اس کے لیے ٹوئٹر بہترین پلیٹ فارم ہے، ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میکڈونلڈز نے ایک بار پوسٹ کیا تھا کہ کیسے انٹرنیٹ پیکیج نا ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پوسٹ اپ لوڈ نہیں ہو سکی، ایسے میں جاز نے انٹری دی اور ایک ایسی بات چیت کی ابتداء ہوئی جس نے بالآخر متعدد اقسام کے دلچسپ اندازوں سے سامعین میں تجسس پیدا کر دیا۔”
سندس کی بیان کردہ مثال نے ٹوئٹر، فیس بُک، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر کافی توجہ سمیٹی مگر ٹوئٹر پر یہ اتنی بااثر نہیں ثابت ہوئی جتنے مثبت نتائج اس کے انسٹا گرام اور یوٹیوب پر ملے۔
ٹرولز اور فیک اکائونٹس
میڈیا ایگزیکٹیوز نے بتایا کہ ٹوئٹر ایک وسیع پلیٹ فارم ہے، پرائیویٹ اکاؤنٹس بہت کم ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ٹرولز اور ہیش ٹیگ ٹرینڈز کا آسان ہدف ہیں، ان ہیش ٹیگزکو جعلی صارفین کی مدد سے بآسانی بڑھایا جا سکتا ہے اور سوشل میڈیا کی اضافی مین پاور کی بدولت انہیں مخصوص سیاسی یا کارپوریٹ پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، ٹرولز کیخلاف ٹویٹر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
پرافٹ سے بات کرنے والے ایڈورٹائزرز کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک بڑا مسئلہ فیک اکاؤنٹس کا بھی ہے، لوگ ان جعلی پروفائلز کو اصلی سمجھ لیتے ہیں اور سوشل میڈیا کمپنیاں انہیں بند کرنے اور اصلی اکاؤنٹس کی تصدیق کی درخواستوں پر سست روی سے عمل کرتی ہیں، کمپنیوں کو فیک اکاؤنٹس کو بند کرنے میں سست روی کے پیچھے پاکستان میں صارفین اور مشتہرین کی بڑی تعداد سے محروم ہو جانے کا ڈر بھی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے وزارت اطلاعات کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے جنرل مینیجر عمران غزالی نے حال ہی میں خطے میں ٹوئٹر کے دفتر کے ساتھ رابطے کا چینل قائم کیا ہے، اس کا نتییجہ یہ نکلا ہے کہ کمپنی نے 45 اکاؤنٹس کی تصدیق کر دی ہے جس میں صدر مملکت، قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اور سیگر وفاقی و صوبائی وزراء کے اکاؤنٹس شامل ہیں۔ اس حوالے سے عمران غزالی نے بتایا کہ اگرچہ 45 اکاؤنٹس کی تصدیق ہونا چھوٹی چیز ہے مگر ڈیجیٹل سپیس میں حکومت پاکستان کی موجودگی بڑھانے کے لیے یہ ایک اہم اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ غلط اور جعلی خبروں اور اکاؤنٹس کی بھرمار میں حکومت پاکستان کے اکاؤنٹس کا تصدیق شدہ ہونا ضروری ہے تاکہ عوام تک درست اور مستند اطلاعات پہنچ سکیں۔
سرٹیفکیشن
ایم ڈبلیو ایم سٹوڈیوز ایک پرفارمنس مارکیٹنگ ایجنسی ہے، اس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر دانش ایوب کے مطابق ”جب کوئی پلیٹ فارم ایڈورٹائزرز اور ایجنسیوں کو مفت تربیت کے ذریعے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اس پر اپنی اشتہاراتی مہم کا آزمائشی بنیادوں پر چلائیں تو دراصل وہ اپنے بارے میں اعتماد پیدا کرنے اور کامیابی کی ضمانت دینے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔”
دانش ایوب کا اشارہ فیس بک کے اس ٹریننگ پروگرام کی طرف تھا جس کا مقصد مارکیٹرز کو فیس بک کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اشتہاروں کے تمام فارمیٹس اور ٹولز کی سمجھ بوجھ فراہم کرنا تھا جو انسٹا گرام اور وٹس ایپ پر بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
ان کا اشارہ گوگل گیراج (Google Garage) کی جانب بھی ہے، یہ ایک تربیتی پروگرام ہے جو صرف اُن مارکیٹرز اور ڈیجیٹل میڈیا پلانرز کے لئے ہے جو یا تو گوگل پر نمایاں کیس سٹڈی کا حصہ رہے ہوں یا انہوں نے سرچ یا یوٹیوب پر کافی رقم خرچ کی ہو۔
مراعات
میڈیا ایگزیکٹو کہتے ہیں کہ ٹوئٹر پاکستان میں ایک ری سیلر کے ساتھ کام کرتا ہے اور وہ کمیشن اور دیگر مراعات کے حوالے سےغیریقینی کا شکار ہے، یہ چیز اس کے دیگر ایڈورٹائزرز کے ساتھ کام کرنے کی راہ میں رُکاوٹ ہے۔
دانش ایوب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ ایڈورٹائزرز کو اِن ہاؤس ڈیجیٹل میڈیا ایجنسی بنانے کی ٹریننگ دینے کے علاوہ کوئی سروس فراہم نہیں کرتے، چھوٹے کاروباروں کی ایجنسیاں مراعات حاصل کرنے کے لیے گوگل اور فیس بک کی کم سے کم اخراجات کی شرط پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ایسے میں ٹوئٹر کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ ان ایجنسیوں کو اچھی مراعات اور کمیشن دے کر اپنے کاروبار کو فروغ دے۔
’اگر ٹوئٹر یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا پر کی جانے والی اشتہار بازی میں اس کو بھی شامل کیا جائے تو اسے کمیشن یا رعایت پر مبنی ماڈل ہی اپنانا ہو گا جیسا گوگل اور فیس بک کی جانب سے اپنایا گیا ہے۔‘
کچھ تجاویز
اشتہاراتی صنعت کے مبصرین کا کہنا ہے کہ:
1۔ ٹوئٹر کو پاکستان میں اپنی موجودگی بڑھانے اور اس ضمن میں اشتہاراتی ایجنسیوں کے پالیسی سازوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
2۔ فریقین کو پاکستان میں ٹوئٹر صارفین کی تعداد میں اضافے، ایڈ فارمیٹس کی بہتر قیمتوں کے تعین، ڈیسک ٹاپ اور موبائل میں اشتہاروں کو بہتر طور پر دکھانے کی کوشش اور میڈیا پلاننگ کو بہتر کرنے سے متعلق بات چیت کرنی چاہیے۔
3۔ گوگل اور فیس بک کی طرح ٹوئٹر کو بھی پاکستان میں تربیتی ورکشاپس کے انعقاد سے سرمایہ کاروں اور ایڈورٹائزرز کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے۔
4۔ ٹوئٹر کو بزنس ٹو بزنس سپیس میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، گوگل اور فیس بک کی طرح آزمائشی بجٹ پش کرکے ٹوئٹر بھی مارکیٹرز کو راغب کر سکتا ہے جس میں کامیابی کی صورت میں اس پر اشتہاراتی بجٹ خرچ کرنے کے رُجحان میں اضافہ ممکن ہے۔