اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنی معیشت مستحکم کرنے پر توجہ دی، غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔
عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کے زیر انتظام کووڈ۔19 سے نمٹنے اور معاشی بحالی کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات کے حوالہ سے ”پاکستان سٹرٹیجی ڈائیلاگ“ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے، عوام کو بیماری سے تحفظ اور لوگوں کو بھوک سے بچانے کیلئے اقدامات کئے۔
انہوں نے کہا کہ مکمل شٹ ڈائون یا لاک ڈائون کا کسی کو بھی تجربہ نہیں تھا تاہم لاک ڈائون کے نفاذ کے بعد جلد ہی حکومت پاکستان نے عوام کو بھوک سے مرنے سے بچانے کی حکمت عملی اپنائی اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جن کے خاندان یومیہ یا ہفتہ وار اجرت پر انحصار کرتے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب لاک ڈائون ہوا تو یومیہ مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے، یہ کارکن معیشت کے غیر روایتی شعبوں میں کام کرتے تھے اور مزدوری سے اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالتے تھے، پاکستان میں 80 فیصد مزدور غیر روایتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہم امریکا کی طرح اپنے عوام کے بینک اکائونٹس میں رقوم منتقل نہیں کر سکتے تھے، ہمیں جلد احساس ہوا کہ ہم یورپ کی طرح مکمل لاک ڈائون کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کی اور مکمل لاک ڈائون کی بجائے مخصوص علاقوں اور ہاٹ سپاٹس کا لاک ڈائون کیا، اس لئے پاکستان نے دیگر ممالک کی نسبت جلد ہی اپنی معیشت کے بعض شعبوں کو کھول دیا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم نے زرعی شعبہ کبھی بھی لاک ڈائون نہیں کیا تاکہ دیہی عوام کی زندگی متاثر نہ ہو بلکہ ہم نے اپنی تعمیرات کی صنعت کو بھی جلد ہی کھول دیا جو زیادہ تر شہروں میں تھی لیکن عموماً کھلی جگہ پر کام کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 15 ملین سے زیادہ خاندانوں کیلئے کیش پروگرام کا آغاز کیا جو ایک بہترین پروگرام ہے اور حقیقت میں اس پروگرام سے ہم نے عوام کو لاک ڈائون کے ثمرات سے تحفظ فراہم کیا۔ عوامی تعاون سے دیگر کسی بھی ملک کی نسبت وائرس کے پھیلائو پر بہتر طور پر قابو پایا، معیشت کو کووڈ۔19 کے اثرات سے بچانے کے ساتھ عوام کو بھوک سے مرنے سے بھی بچایا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب وائرس کی دوسری لہر کا سامنا ہے لیکن عوام پہلے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ دوسری لہر کب تک جاری رہے کیونکہ اب سردیاں ہیں، یہ امور باعث تشویش ہیں، ہم نے کورونا کی پہلی لہر سے یہ سیکھا کہ پاکستان جیسا غریب ملک جہاں غربت اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے، مکمل لاک ڈاﺅن اور کاروباری بندشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لئے حکومت نے پالیسی مرتب کی کہ روزگار کی فراہمی کیلئے کاروباروں اور فیکٹریوں کو بند نہیں کریں گے، صرف غیرضروری اجتماعات پر پابندی ہو گی تاکہ معیشت متاثر نہ ہو۔
وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ معیشت کے متاثر ہونے سے عوام پر پڑنے والے اثرات وائرس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم نے دو بڑے چیلنجز کا سامنا کیا ہے، سب سے بڑا چیلنج مالیاتی خسارہ تھا، جب ہم اقتدار میں آئے تو پاکستان کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی خسارہ کا سامنا تھا اور دوسرا حسابات جاریہ کا خسارہ تھا جو ایک ریکارڈ تک حد تک بڑھ چکا تھا، ہم نے پہلے ایک، ڈیڑھ سال معیشت کے استحکام، خسارہ جات میں کمی، اخراجات پر قابو پانے، گورننس کی بہتری، ٹیکس وصولیوں میں اضافہ، مالیاتی نظم و ضبط پر توجہ دی۔
مزید برآں حکومت نے درآمدات میں کمی اور برآمدات کے فروغ کے علاوہ پاکستان میں ترسیلات زر کی وصولیاں بڑھانے کے اقدامات کئے، ترسیلات زر پاکستانی معیشت کا بڑا حصہ ہیں، اس کے علاوہ حکومت نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ میں اضافہ کے اقدامات کئے، منی لانڈرنگ پر قابو پایا کیونکہ ترقی پذیر دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ غیرقانونی طور پر دولت کی بیرون ملک منتقلی ہے، ان اقدامات کے نتیجہ میں 17 سال کے بعد گزشتہ سہ ماہی کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ سرپلس رہا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے اور ہمارے روپے کے مستحکم ہونے کی بھی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہماری کرنسی کی مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ کے تحت قیمت کا تعین ہوتا ہے، چند ماہ سے روپیہ مستحکم ہے بلکہ اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، برآمدات بڑھ رہی ہیں، ماضی میں کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی وجہ سے برآمدات کم ہوتی گئیں اور تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر کو پہنچ گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ برآمدی شعبے کو مراعات کی فراہمی سے برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ حکومت نے عمومی صنعت کیلئے مراعاتی پیکیج متعارف کرایا ہے۔ کووڈ۔19 سے متاثر دیگر ممالک کے مقابلہ میں پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں پر سٹاک ایکسچینج میں کاروباری برداری حکومت پر اعتماد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کے مرکز فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتی کارکنوں کی قلت ہے، ہم نے پہلے معاشی استحکام کے اقدامات کئے اور اب ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
سی پیک کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ صرف چین کا منصوبہ نہیں بلکہ اس کے تحت پہلے مرحلہ میں رابطوں میں آسانی پر توجہ دی گئی اور ٹرانسپورٹ سمیت روڈ اور ریل نیٹ ورک کو توسیع دی گئی۔ اس کے علاوہ ہم نے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی کیونکہ ہمیں توانائی کی قلت کے مسائل درپیش تھے۔
انہوں نے کہا کہ بڑھتی آبادی اور بہتر شرح نمو کیلئے ہمیں توانائی کی ضرورت تھی۔ اب سی پیک کا دوسرا مرحلہ رابطوں سے کہیں وسیع ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز بنا کر وہاں خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں۔ اسی طرح زرعی شعبہ کی استعداد میں بہتری کیلئے ہمیں چین کے تجربات سے استفادہ درکار ہے۔ ہم چین کی مدد سے ٹیکنالوجی کے ادارے بنا رہے ہیں تاکہ پاکستان کی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ای کامرس کی ترقی اور ہنرمند افرادی قوت دستیاب ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم اپنی ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں جو انقلابی تبدیلی ہو گی، ایم ایل ون کے تحت کراچی کو پشاور سے ملایا جا رہا ہے۔ دوسرے مرحلہ میں ہم افغانستان کے راستے ازبکستان تک ریلوے نیٹ ورک کو توسیع دیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے تاہم توقع ہے کہ مسائل کا خاتمہ ہو گا اور اگر ایران سے پابندیاں ہٹائی جائیں تو جنوب مغربی رابطوں میں اضافہ ہو گا اور پاکستان اپنے خصوصی سٹرٹیجک محل وقوع کے باعث ایک بڑی مارکیٹ اور انرجی کوریڈور بن جائے گا، سی پیک صرف چین کیلئے مختص نہیں بلکہ جو بھی اس میں شامل ہونا چاہے ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان سے طویل عرصہ کے بعد امن کی بحالی ہو رہی ہے۔ افغان مسئلہ کا فوجی حل نہیں تھا اور اب آخرکار مذاکرات شروع ہوئے ہیں اور پاکستان نے امریکہ طالبان مذاکرات میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں تشدد بڑھ رہا ہے جو ہمارے لئے باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کو اہمیت دیتے ہیں جس کا بڑا فائدہ افغان عوام کو ہو گا، اس کے بعد پاکستان اور وسطی ایشیاء کے ممالک کو فائدہ ہو گا، افغانستان گوادر کے راستے دنیا سے جڑ سکتا ہے۔ توقع ہے کہ افغانستان امن مذاکرات کامیاب ہوں گے، افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات دہشت گردی کی جنگ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، وہاں پر لوگوں کی بحالی کیلئے افغانستان میں امن ضروری ہے جس سے سرحد کے ساتھ لوگوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی جو تجارت سے کہیں اہم ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے افغان مذاکرات شروع کرائے۔ جب تنازع طویل ہو جائے تو اس کا خاتمہ مشکل ہوتا ہے تاہم امید ہے کہ افغان مذاکرات کی کامیابی سے خطہ میں امن و امان کی بہتری میں مدد ملے گی، صدر ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا ہے اور توقع ہے کہ نومنتخب صدر بائیڈن اس کو جاری رکھیں گے کیونکہ مذاکرات ہی تنازعات کا حل ہو سکتے ہیں، ہم سب کو افغان امن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
روزگار کی فراہمی کے حوالے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت زیادہ لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتی اس لئے نجی شعبہ کی ترقی پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، پاکستان زراعت، گورننس کی بہتری اور دیگر شعبوں میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے تحت اقدامات کرے گا، ای گورننس سے گورننس کے نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے، ہم حکومت کے تمام محکموں کو ای گورنمنٹ کے نظام سے منسلک کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان 220 ملین آبادی کی بڑی مارکیٹ ہے۔ ہم نے کاشتکاروں کی بہتری، ریٹیل اور ہول سیلز کے شعبوں کی بہتری اور غذائی افراط زر پر قابو پانے کے اقدامات کئے ہیں تاکہ صارفین کو سستی اشیاء دستیاب ہو سکیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی سربراہی میں کمیٹی قیمتوں میں کمی اور صارفین کی آسانی کے اقدامات کر رہی ہے۔ کاشتکاروں کو ان کے درست معاوضوں کی ادائیگی چاہتے ہیں، یہ بھی چاہتے ہیں کہ صارفین کو سستی اشیاء دستیاب ہوں، پاکستان میں بہترین پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن مارکیٹ کے مسائل درپیش ہیں ہم برآمد نہیں کر سکتے، اس حوالہ سے ہم عالمی برادری کی معاونت چاہتے ہیں۔
اسی طرح حکومت آٹو موبائلز کے سرمایہ کاروں کو بھی دعوت دیتی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور یہاں سے برآمدات کریں۔ اس حوالہ سے جامع مراعات دے رہے ہیں، اسی طرح کووڈ۔19 کے بعد شرح نمو کی ترقی کیلئے الیکٹرک وہیکلز پالیسی متعارف کرائی ہے، ہماری حکومت ماحولیات پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کاروباری آسانیوں کی فراہمی کے انڈیکس میں 28 درجے ترقی کی ہے۔ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کرنے اور منافع کمانے کی ہر ممکنہ سہولت دیں گے جس کیلئے ہم رکاوٹیں ختم کر رہے ہیں، تعمیرات کے شعبہ سے 30 فیصد صنعتیں منسلک ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مراعات دی ہیں، اسی طرح ایس ایم ایز اور سرمائے کی مارکیٹ میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2020ء کا پاکستان کاروباری مواقع، صنعتوں کے قیام، لوگوں کوغربت سے نکالنے کیلئے پرعزم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں توانائی مہنگی ہے، ہم چین کے اشتراک سے سستی توانائی کی فراہمی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ ماضی میں توانائی معاہدوں کی وجہ سے پاکستان میں 25 فیصد مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی تھی لیکن حکومت اب دیگر ممالک کی طرح سستی بجلی کی فراہمی پر توجہ دے رہی ہے تاکہ صنعتی ترقی کو فروغ حاصل ہو اور شرح غربت کم ہو سکے۔ ہم صنعتوں کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔