اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور خصوصی اقدامات نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی (ترمیمی) بل 2020ء کی کثرتِ رائے سے منظوری دے دی۔
رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کا اجلاس ہوا جس میں مذکورہ بل کے مسودہ پر تفصیلی بات چیت کرنے کے بعد متفقہ طور پر ترمیمی بل کی منظوری دی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: چین کا سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا اعلیٰ و معیاری ماڈل بنانے کے عزم کا اظہار
اس سے قبل قائمہ کمیٹی نے سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین کو دیے گئے سیلری پیکیج کے بارے میں وزارتِ منصوبہ بندی سے معلومات طلب کی تھیں جس سے متعلق وزارت نے جواب دیا تھا کہ چئیرمین سی پیک کو کوئی تنخواہ نہیں دی گئی کیونکہ سی پیک آرڈی نینس کی مدت ختم ہونے کے بعد چئیرمین نے کسی بھی طرح کی تحریری یادداشت پر دستخط نہیں کیے تھے۔
سی پیک (ترمیمی) بل 2020ء کی مخالفت کرنے والوں میں محمد سجاد، احسن اقبال، محمد جنید انور چوہدری، سردار محمد عرفان ڈوگر اور سید آغا رفیع اللہ شامل تھے۔
سی پیک اتھارٹی آرڈی نینس 2020ء کیا ہے؟
واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی تکمیل کا عمل تیز کرنے کیلئے حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈی نینس 2020ء متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مسودہ کی منظوری کابینہ کمیٹی آن ڈسپوزل آف لیجسلیٹو کیسز (سی سی ایل سی) پہلے ہی دے چکی ہے جسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل وفاقی کابینہ سے بھی منظور کرایا جائے گا۔
سی پیک اتھارتی کا قیام ایک آرڈی نینس کے ذریعے 5 اکتوبر 2019ء کو عمل میں آیا تھا اور اس کا مقصد سی پیک منصوبوں کی نگرانی اور اس حوالے سے مختلف محکموں کے درمیان رابطہ کاری کو ممکن بنانا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ماضی میں ’زندہ انسانوں کا قبرستان‘ کہلانے والا جلوزئی مہاجر کیمپ اب خصوصی اقتصادی زون میں بدل رہا ہے
ذرائع نے بتایا کے نئے مسودہ قانون میں سی پیک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) کا عہدہ ختم کرنے، فیصلہ سازی کے عمل میں چیئرمین کے اختیارات میں کمی اور سی پیک بزنس کونسل کی تشکیل کیلئے اتھارٹی کے اختیارات ختم کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
مجوزہ قانون کے مطابق ’اتھارٹی کسی بھی شخص، ادارے یا تنظیم سے سے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتی ہے جو سی پیک سے کسی بھی طرح منسلک رہا ہو، یہ معلومات اتھارٹی کے مقرر کردہ وقت کے اندر مہیا کرنا لازم ہو گا۔‘
اسی طرح سی پیک اتھارٹی اپنے کام کے حوالے سے کسی بھی سرکاری دفتر، اتھارٹی یا ادارے سے مدد طلب کر سکتی ہے، صوبائی حکومتوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں کے مقرر کردہ نمائندوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جن کا تقرر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے: سات سالوں میں سی پیک منصوبوں پر کتنے ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوئی؟
مسودہ قانون میں تجویز دی گئی ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے اجلاسوں کیلئے کورم کل ارکان کی دو تہائی تعداد پر مشتمل ہو گا جبکہ تمام فیصلے اکثریتی رائے سے ہوں گے۔
سی پیک اتھارٹی کو مشاورت فراہم کرنے کیلئے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے نوٹی فکیشن کے بعد سی پیک بزنس کونسل قائم کی جائے گی، سرمایہ کاری بورڈ مذکورہ کونسل کیلئے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔ اس حوالے سے پہلے ہی نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن آف چائنا اور پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔
یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ سی پیک اتھارٹی کو سنگل لائن بجٹ فراہم کیا جائے گا اور اس کا چیئرپرسن ہی بطور اکائونٹنگ آفیسر کام کردار ادا کرے گا، بجٹ پر تین رکنی کمیٹی نظرثانی کرے گی، جبکہ اتھارٹی فنانس ڈویژن کے قواعد کے مطابق سی پیک فنڈ بھی قائم کرنے کی مجاز ہو گی۔
اتھارٹی اپنے بجٹ اور اخراجات کا مصدقہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا ایسی ہی کسی فرم سے سالانہ آڈٹ کرانے کی ذمہ دار ہو گی۔ مجوزہ مسودہ قانون وزیراعظم آفس کو بھیجا گیا تھا جہاں سے اسے کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔