مصنوعات کی فروخت کیلئے خواتین کا سہارا لینا کوئی نئی بات نہیں، یہ ایک پرانی تکنیک ہے جو مدتوں سے چلی آ رہی ہے، عام طور پر تو ایسا اشتہاری صنعت میں ہوتا ہے مگر بعض اوقات کسی نوکری کی شرائط میں بھی ایسی ہی چیز شامل ہوتی ہے، نیم برہنہ خواتین کے ذریعے مصنوعات بیچنے کا طریقہ کار ماضی میں بھی اپنایا جاتا تھا اور بدقسمتی سے آج بھی رائج ہے۔
یہ سب کچھ حیران کن نہیں، مگر حال ہی میں پاکستان کے اسلامک بینکوں میں خواتین ملازمین کے حوالے ایک رجحان تیزی سے ’مقبولیت‘ پا رہا ہے، صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ’اسلامی بینک‘ ہیں۔
اب اسلامی بینکوں میں خواتین بالکل ویسا لباس پہنتی ہیں جیسا 1950ء کی دہائی میں پاکستان میں کوکا کولا کے اشتہارات میں پہنے ہوئے نظر آتی تھیں، آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج کل اشتہارات میں جس طرح کا لباس خواتین زیب تن کرتی ہیں، وہ مارکیٹنگ کی حکمت عملی ہوتی ہے، لیکن اسلامی بینک یہی حکمت عملی ذرا مختلف انداز میں استعمال کر رہے ہیں، مقصد ان کا بھی اشتہار بازی اور مارکیٹنگ ہی ہے۔
اسلامی بینکنگ کی اصطلاح تو آپ نے سن رکھی ہو گی، یہ دراصل روایتی بینکاری کا ہی ایک ورژن ہے جسے کچھ ’سجا سنوار‘ کر پیش کیا جا رہا ہے، ‘اگرچہ بینک اپنی مصنوعات کے نام مختلف رکھ کر تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اسلامی اور روایتی بینکاری دو مختلف چیزیں ہیں لیکن اگر آپ گہرائی میں جھانکیں تو معلوم ہو گا دونوں میں کوئی فرق نہیں۔‘
مگر ایسا کہنا بھی ٹھیک نہیں، کیونکہ اسلامی بینکوں کی بہت سی قرضہ اور ڈیپازٹس سے متعلق سکیمیں تکنیکی طور پر اپنی حریف یعنی روایتی بنکنگ سے بہت مختلف ہیں، تکنیکی طور پر یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں کوئی مذہیی شخصیت یا وکیل ہی بہتر اور تفصیل سے جان سکتا ہے۔
بینک صارفین کی نظروں میں اپنی مصنوعات کی ظاہری شبیہہ اور خدمات فراہمی کے طرہقے کو تبدیل نہیں کر سکتے تاہم وہ ایسا کچھ ضرور کر سکتے ہیں جس سے وہ زیادہ سے زیادہ اسلامی نظر آئیں۔
پاکستان میں اسلامی بینکوں کے پاس اس کا تیر بہ ہدف نسخہ یہ ہے کہ ملازمین کے لباس سے متعلق ہدایات جاری کر دی جائیں کہ وہ کیا پہنیں اور کیا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: چھوٹے سے سرمایہ کار ادارے سے شروع ہونے والا میزان بینک اسلامی بینکنگ سیکٹر میں پہلے نمبر پر کیسے آیا؟
بالکل یہی کام فیصل بینک نے حال ہی میں کیا ہے، وہ اپنے صارفین کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ کس طرح وہ میزان بینک (ملک کا سب سے بڑا اسلامی بینک) کے نقش قدم پر چلتا ہوا سبک رفتاری کے ساتھ روایتی سے اسلامی بینکنگ کی جانب گامزن ہے۔
یہاں ہم وضاحت کرتے چلیں کہ ملازمین کیلئے ڈریس کوڈ کے معاملے پر میزان بینک اور فیصل بینک کی پالیسیاں نئی نہیں، بلکہ ان کے بارے میں معاشرے میں ہونے والی باتیں نئی ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب فیصل بینک کی اسلامی بینکاری کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی بینکنگ سیکٹر میں بھی اسلامی بینکاری کا حصہ بڑھ رہا ہے۔
اسلامی بینکوں کی جانب سے نافذ کیا گیا ڈریس کوڈ ایک امتیازی سلوک ہے جس کا نشانہ صرف خواتین ملازمین بن رہی ہیں، لیکن امتیازی سلوک کا سامنا صرف خواتین کو ہی نہیں، حقیقت میں ان بینکوں میں نوکری کے خواہشمند وہ افراد جن کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہوتا ہے انہیں بھی جاب انٹرویو کے دوران امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انٹرویوز میں ان افراد سے کئی بار ان کے مذہبی عقائد سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
غرضکہ اسلامی بینکوں کو اپنے ہاں ‘ایک مخصوص قسم‘ کا ملازم ہی چاہیے جس کے علاوہ کوئی دوسرا وہاں ملازمت کا اہل نہیں سمجھا جاتا، یہ طرز عمل واضح طور پر تفریق پر مبنی ہے۔
لیکن قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ اسلامی بینکوں میں بہت کم لوگ کام کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے وہاں ملازم ہیں، تو پھر بینک کی پالیسوں سے مسئلہ کیسا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ اسلامی بینکنگ کا شعبہ بھلے ابھی حجم کے لحاظ سے چھوٹا ہے مگر یہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اگر یہ بینکنگ سیکٹر میں ملازمت کے قوانین پر اثرانداز ہونا شروع ہو گیا تو ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
پاکستان میں بینک کی نوکری کی کافی مانگ ہے، اسی کی وجہ مذکورہ ملازمت کے ساتھ جڑی مراعات (رعایتی قرضے اور گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈنگ وغیرہ) ہیں۔ بینک کی نوکری کو پاکستان میں ایسی ملازمت سمجھا جاتا ہے کہ جس کی بنا پر کوئی شخص اپرمڈل کلاس کی طرز کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔
دستیاب اعدادوشمار کے مطابق سال 2019ء میں پاکستان میں بینک ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار تھی، مڈل کلاس طبقے کی ملازمتوں کے حوالے سے یہ معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے اس لیے اس شعبے میں کیا کچھ ہوتا ہے، یہ چیز اہمیت کی حامل ہے۔
ڈریس کوڈ سے آغاز کرتے ہیں
جب سے پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا آغاز ہوا ہے تب سے ان بینکوں میں کام کرنے والی خواتین عبایا اور سکارف پہنتی آ رہی ہیں، دوسری طرف مرد ملازمین زیادہ تر سوٹ یا پھر کبھی کبھار شلوار قمیض میں ملبوس نظر آتے ہیں۔
ان بینکوں میں مردوں سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی اُسی لباس میں کریں جس میں دوسرے روایتی بینکوں یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے مرد ملازمین کرتے ہیں، یہ وہی ڈریس کوڈ ہے جو پاکستان کے سرکاری دفاتر میں رائج ہے مگر خواتین کے لیے معاملہ اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں خواتین کے لیے ڈریس کوڈ غیرواضح ہے، عام طور پر یہ نفیس شلوار قمیض پرمشتمل ہوتا ہے تاہم بعض دفعہ کمپنیاں اس ضمن میں کچھ ہدایات جاری کر دیتی ہیں، جیسا کہ بغیر بازوؤں کی قمیض، کیپری پاجامے اور مغربی لباس پہننے کی ممانعت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: میزان بینک کا ملازمین کے لیے ّماسک رُول‘، خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ
تاہم عام مشاہدہ یہی ہے کہ پاکستانی کارپوریٹ سیکٹر میں خواتین سے شلوار قمیض پہننے کی ہی توقع کی جاتی ہے لیکن انہیں اپنی مرضی کا فیبرک اور پرنٹ پہننے کی آزادی ضرور حاصل ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین پر عبایا پہننے یا نہ پہننے کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔
سرکاری سطح پر خواتین کے لیے مخصوص لباس پہننا لازم نہیں، جیسا کہ سعودی عرب میں ہے۔ اگرچہ یہاں خواتین اس بارے میں ضرور سوچتی ہیں کہ’ لوگ کیا کہیں گے؟’ مگر پھر بھی انہیں آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس زیب تن کریں۔
تاہم اسلامی بینک خواتین سے ان کی اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق بھی چھین رہے ہیں، درحقیقت یہ بینک اپنی خواتین ملازمین کے لباس کو بھی مارکیٹنگ کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں مگر انہوں نے مردوں کو اس ضمن میں مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پانچ بڑے بینکوں کی بالادستی ختم ہونے کو ہے، مگر کیسے؟
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پرافٹ اردو سے گفتگو میں میزان بنک کی ایک ملازمہ کا کہنا تھا ”اگرچہ ڈریس کوڈ میں عبایا کے رنگ بارے واضح ہدایات نہیں ہیں لیکن اُمید یہی کی جاتی ہے کہ ہم گہرے یعنی کالے یا نیلے رنگ کے عبایا استعمال کریں، اس صورت میں میرے پاس اپنی فیشن سینس دکھانے کا واحد ذریعہ سر کا اسکارف ہی رہ جاتا ہے۔”
’’عبایا کے نیچے سے ہمارے کپڑوں کی جھلک نظر آنے کے پیش نظر ہمیں شلوار قمیض پہننے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘‘ میزان بینک اسلامی نظر آنے کے لیے اس حد تک چلا گیا ہے۔
تاہم اسلامی ہونے کا تاثر دینے کے لیے ان بینکوں نے مردوں کے لیے کوئی ڈریس کوڈ لاگو نہیں کیا، جیسا کہ شلوار یا یینٹ ٹخنوں سے اوپر رکھنا، ڈھیلا ڈھالا لباس پہننا، سر پر ٹوپی رکھنا یا داڑھی بڑھانا وغیرہ۔
میزان بینک کے کوڈ آف کنڈکٹ کی دستاویز میں لکھا ہے کہ ”خواتین ملازمین کے لیے عبایا اور سکارف پر مشتمل نفیس لباس پہننا لازمی ہے جو نمائشی طرز کا نہ ہو۔”
اس حوالے سے میزان بینک کی ہی ایک اور ملازمہ کا کہنا تھا ”اگرچہ اس کوڈ آف کنڈکٹ میں لکھا ہے کہ خواتین ملازمین میک اَپ کر سکتی ہیں مگر یہ بات اس لیے بےمعنی ہے کیونکہ ہمیں سادہ رہنے اور نمودونمائش سے پرہیز کا حکم ہے، آخر یہ لوگ کیوں سمجھتے ہیں کہ میرا میک اَپ صرف مخالف جنس کو لبھانے کے لیے ہوتا ہے؟ میں یہ اپنی ذات کے لیے کرتی ہوں۔”
پرافٹ اردو یہاں یہ بھی بتانا چاہے گا کہ میزان بینک نے ملازمین کے مابین اس قدر تفریق رکھی ہے کہ ہیڈ آفس میں خواتین اور مرد ملازمین کا دوپہر کے کھانے کا وقت بھی الگ الگ رکھا گیا ہے، اگرچہ بینک یہ جواز پیش کرتا ہے کہ ایسا کیفے ٹیریاز میں جگہ کی کمی کے باعث کیا گیا ہے مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ قدم مرد و خواتین کے میل جول کو روکنے کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔
ہم نے اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے میزان بینک سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس فیچر کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
یہ ڈریس کوڈ آیا کہاں سے؟
کوالالمپور میں قائم اسلامک فنانشل سروسز بورڈ (IFSB) کے سابق اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جمشد انور چٹھہ، جو ان دنوں آئی ایم ایف کے ساتھ بطور ایڈوائزر اسلامک بینکنگ کام کر رہے ہیں، کا کہنا ہے ”اسلامی بینکوں کی خواتین ملازمین پر عبایا اور سکارف پہننا لازم نہیں، درحقیقت بہت سے ممالک میں اس کا زبردستی نفاذ بھی نہیں کیا گیا، سوائے اُن ممالک کے جن کے آئین میں خواتین کا ڈریس کوڈ دیا گیا ہے۔”
ڈاکٹر چٹھہ کا کہنا ہے کہ قانون، ایس او پیز، اسلامک بینکنگ شریعہ بورڈ اورعالمی سطح پر بہترین خدمات کی فراہمی وہ چار عوامل ہیں جن میں کہیں بھی اسلامی بینکوں کے ڈریس کوڈ کا ذکر نہیں ہے۔ ایسا کوئی قانون نہیں جو اسلامی بینکوں کو کسی ڈریس کوڈ کا پابند بناتا ہو، پاکستان میں بینک یہ کام خود سے کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جمشد انور کے مطابق پاکستان میں خواتین کو لباس کے حوالے سے سماجی دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے لیکن اس امر کی کوئی ضرورت نہیں کہ آپ کسی کو اُس کی مرضی کے خلاف بتائیں کہ اسے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔ تاہم کارپورٹ سیکٹر میں ڈریس کوڈ سے متعلق قانون کی عدم موجودگی کے باعث کمپنیاں اپنی مرضی کا ڈریس کوڈ نافذ کرسکتی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے مرزا معیز بیگ، جو زیادہ تر آئینی معاملات پر مبنی مقدمات کی پیروی کرتے ہیں، کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ”بینک ملازمت فراہم کرنے والا ایک نجی ادارہ ہوتا ہے، جب بھی کوئی فرد کسی بینک کے ساتھ ملازمت کے معاہدہ پر دستخط کرتا ہے تو وہ خود کو اس کی پالیسی کے تابع بنا لیتا ہے مگر ایک بینک کے لے بھی اپنی پالیسیاں قوانین کے مطابق بنانا ضروری ہے، کوئی قانون کسی بھی ملازمت فراہم کرنے والے ادارے کو ڈریس کوڈ کے نفاذ سے نہیں روکتا۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: ’سیالکوٹ کی بزنس کیونٹی ائیرپورٹ بنا سکتی ہے تو بینک بھی قائم کر سکتی ہے‘
’’عدالتیں بینکوں کو اس کام سے کیسے روک سکتی ہیں؟ اگر کوئی ملازم عدالت میں یہ درخواست دینا چاہتا ہے کہ بینک کی فلاں پالیسی اُس کے آئینی حق کے خلاف ہے تو وہ ایسا کس قانون کے تحت کرے گا؟ آئین کا آرٹیکل 199 تو صرف سرکاری اداروں سے متعلق ہے۔”
جہاں تک فیصل بینک کی بات ہے تو وہ ملازمین پر اپنی پالیسی کے امتیازی اثرات سے انکار نہیں کرتا اور اس کو متعدد وجوہات کی بنا پر جائز بھی قرار دیتا ہے جن میں اسلامک بینکنگ انڈسٹری کی سٹینڈرڈ پریکٹس سرفہرست ہے ۔
پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا، ”یہ ٖڈریس کوڈ ہماری اسلامک بینکنگ کی پہلی برانچ کھلنے کے وقت سے نافذ ہے، خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عبایا اور سکارف پہنیں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی بینکنگ سے مطابقت رکھتا ہے۔”
’اس چیز پر اَب میڈیا میں باتیں ہو رہی ہیں، یہ ڈریس کوڈ ہم نے ایجاد نہیں کیا، یہ تمام اسلامی بینکوں میں نافذ ہے، ہماری طرف سے یہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا جو راتوں رات کر لیا گیا ہو۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک فیصل بنک کی جانب سے اس ڈریس کوڈ کے نفاذ کی بات ہے تو یہ فیصل بینک کے برانڈ کے لیے کافی مددگار ہے، لوگ اس تبدیلی کو پسند کر رہے ہیں، اس سے بینک کا کارپوریٹ سیکٹر میں تشخص بہتر ہو رہا ہے۔
فیصل بینک کے مذکورہ اعلیٰ عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ بہت سی خواتین ملازمین نے اس ڈریس کوڈ کو سراہا ہے، بینک خواتین ملازمین کو اُن کی شخصیت کے اظہار سے روک نہیں رہا، وہ اپنی مرضی کا لباس پہننے میں آزاد ہیں، بشرطیکہ وہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے موزوں ہو، خواتین ملازمیں کو زیور پہننے اور میک اَپ کی بھی اجازت ہے۔
مذہبی بنیادوں پر تفریق
ہم یہ تو واضح کر چکے ہیں کہ کس طرح اسلامی بینکوں میں رائج ڈریس کوڈ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا عکاس ہے مگر یہ امتیاز یہیں ختم نہیں ہو جاتا، پاکستان کے اسلامی بینک ملازمت کے متلاشی غیر مسلم اُمیدواروں کے ساتھ اپنے سلوک کے حوالے سے بھی بدنام ہیں۔
ایک غیرمسلم خاتون نے ایک اسلامی بینک میں ملازمت کی درخواست دینے کا اپنا تجربہ یاد کرتے ہوئے بتایا، ”مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا، انٹرویو کرنے والا شخص بار بار یہی سوال دوہرا رہا تھا کہ کیا میں جانتی ہوں کہ یہ ایک اسلامی بینک ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے عبایا اور سکارف پہننے میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں مجھے اس سے مسئلہ ہو گا کیونکہ مجھے اُمید تھی کہ شائد مجھے ڈریس کوڈ سے مستثنیٰ رکھا جائے، مگر ایسا نہیں ہوا، نتیجتاً مجھے وہ نوکری نہیں ملی۔”
اسی طرح ایک غیرمسلم مرد، جنہوں نے ایک اسلامی بینک میں نوکری کے لیے درخواست دی تھی، نے بتایا، ”انٹرویو کرنے والے شخص کے رویے نے مجھے یہ بات سمجھا دی کہ میں صرف اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔”
یہ واضح نہیں ہے کہ اسلامی بینک ملازمت کے لیے صرف مسلم اُمیدواروں کو ہی کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کیوں ایک غیرمسلم شخص کو وہی مالیاتی خدمات فراہم کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا جو ایک مسلمان ملازم کر فراہم سکتا ہے۔ ایک برانچ مینیجر یا بانڈ ٹریڈر کے مذہب کا اس کی ملازمت سے کیا تعلق؟ جن مصنوعات کو فروخت کرنے کا کام وہ کرتے ہیں وہ تو شریعہ ایڈوائزی بورڈ یا پھر بورڈ آف ڈائریکٹر بناتا ہے، اگرچہ دنیا میں اسلامی بنکنگ کی اس سطح پر کئی غیرمسلم کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سونے کے کاروبار اور سکینڈلز سے میڈیا ایمپائر تک،ARY گروپ کے مشکوک عروج کی کہانی
ڈاکٹر جمشید چٹھہ نے اس حوالے سے بتایا کہ آئی ایف ایس بی کے ساتھ کام کرنے والے کئی معاشی ماہر بھی غیرمسلم ہیں، ’سائمن آرچر جیسے ممتاز معاشی ماہر بھی بورڈ کے ساتھ بطور مشیر منسلک ہیں، وہ گزشتہ 13 برس سے ہینلے بزنس سکول میں اسلامک فنانس پر لیکچر بھی دے رہے ہیں، سیموئل ایل ہائیز اور فرینک ای ووگل بھی ایسے ہی غیر مسلم معاشی ماہر ہیں جو بورڈ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘
بات صرف مذہبی امتیاز ہی کی نہیں، بعض دفعہ تو انٹرویو لینے والا شخص امیدوار کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش بھی شروع کر دیتا ہے کہ وہ کتنا مذہبی ہے۔ ایک اُمیدوار نے صرف اسی بناء پر ایک اسلامی بینک کی نوکری کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پرافٹ اردو کے ساتھ اپنے انٹرویو کی یادیں شئیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”مجھے پوچھا گیا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ کیا میں عبادت کرتا ہوں؟ کیا مجھے دعائے قنوت آتی ہے؟”
تاہم فیصل بینک مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویے سے انکار کرتا ہے، بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے ”ہم اپنے ملازمین کے مخلتف پس منظر کو پسند کرتے ہیں، درحقیقت اندرون سندھ میں ہمارے کئی ملازمین غیرمسلم ہیں۔”
کیا یہ امتیازی سلوک قانونی ہے؟
قانونی ماہر مرزا معیز بیگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسلامی بینکوں کو اپنے ملازمین کے ساتھ امتیاز برتنے کا ایک طرح سے حق حاصل ہے، آپ آئین کے آرٹیکل 199 کے ہوتے ہوئے کسی عدالت میں کیسے درخواست دے سکتے ہیں کہ آپ کا آرٹیکل 25 کے مطابق برابری کا حق سلب کر کے نجی کمپنی یا ادارے کی جانب سے آپ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔
مزید یہ کہ ”اسلامی بینک عدالت میں یہ مؤقف اختیار کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو اُن کے اسلامی بینکنگ کے اصولوں پر اعتماد ہوتا ہے، اسی لیے ان کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ عدالتیں کبھی بھی اس بارے میں کوئی حکم نامہ جاری نہیں کرنا چاہیں گی کہ ملازمت پر کون سے افراد کو رکھا جائے اور کسے نہ رکھا جائے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیا ملک میں ایسا کوئی قانون ہے جو نجی اداروں کو ملازمین کے درمیان تفریق سے روک سکے؟‘‘
تاہم قانون میں ہمیشہ گنجائش باقی رہتی ہے، حال ہی میں پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کا کہنا تھا کہ غیر معمولی حالات میں آرٹیکل 199 کا اطلاق نجی کمپنوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت کا اسلامی بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ، میزان بنک بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے تیار
مگر معیز بیگ کا کہنا ہے کہ اسلامی بینکوں کے ڈریس کوڈ کے معاملے میں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا، لہٰذا ’میری ادنیٰ رائے یہی ہے کہ ان بینکوں کے ملازمین کو اس ضمن میں عدالت سے کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔’
فیصل بینک میں خواتین ملازمین کے لباس کے حوالے سے تبدیلیاں خاصی ہنگامہ خیز ہیں، بینک تیزی سے روایتی بینکاری سے اسلامی بینکاری کی جانب گامزن ہے اور اس نے خواتین ملازمین کے ڈریس کوڈ کے نفاذ کے بعد ہر خاتون ملازم کو اس ضمن میں پانچ ہزار روپے کا الاؤنس بھی دینا شروع کر دیا ہے۔
ایسے میں اگر آپ فیصل بینک کی ملازم ہیں اور آپ کو عبایا اور سکارف کے لیے پانچ ہزار روپے بھی مل رہے ہیں تو آپ لباس کے معاملے میں اس تبدیلی پر احتجاج نہیں کریں گے، آپ یا تو استعفی دے سکتے ہیں یا اپنے لباس میں عبایا کو شامل کرسکتے ہیں۔
فیصل بینک کی ہی ایک خاتون عہدیدار نے پرافٹ اردو کو بتایا، ”المیہ تو یہ ہےکہ ہماری ایک ساتھی عبایا پہنتی تھیں جنہیں ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے ایسا کرنے سے روک دیا تھا، مگر اب ہمیں بتایا گیا ہے کہ ڈریس کوڈ تبدیل کردیا گیا ہے۔”
یہ سب اس لیے بھی ہے کیونکہ ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں جو کارپوریٹ سیکٹر کو ڈریس کوڈ نافذ کرنے سے روکے، ملازمت کے معاہدے پر دستخط کرتے ہی آپ کمپنی کی پالیسیون کے تابع اور ان کے مطابق طرزعمل اختیار کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔
ایسا کوئی قانونی پلیٹ فارم موجود نہیں جس پر آپ کسی ناگوار چیز سے متعلق احتجاج کرسکیں، سوائے اپنے دفتری ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر بھڑاس نکالنے کے۔ پاکستان جیسے ملک میں اسلامی بینکوں کے لیے کسی بھی ملازم کا متبادل ڈھونڈ لینا نہایت آسان ہے کیونکہ یہاں کام کی جگہ پر امتیاز کی داد رسی کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں۔
کیا ڈریس کوڈ کی پالیسی کارپوریٹ سیکٹر کے دوسرے حصوں تک بھی پھیل جائے گی؟
یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں مذہب لوگوں کی زندگی کا اہم حصہ ہے لیکن اس پرعمل ہر کسی کیلئے مختلف ہے، تاہم مذہبی اور شخصی آزادی کا مطلب یہی ہے کہ ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کو اپنے ملازمین کے ساتھ امتیازی رویہ برتنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈریس کوڈ کی پالیسی کہاں تک پھیلے گی؟ کیا اسلامی بینکنگ سیکٹر کا اُٹھایا گیا قدم روایتی بینکنگ سیکٹر کو بھی متاثر کرے گا؟ اور اگر روایتی بینکنگ سیکٹر نے اس پالیسی کو اپنا لیا تو کیا اس کا اثر کارپوریٹ سیکٹر کے دوسرے حصوں پر بھی ہو گا؟
ہماے خیال میں ان دونوں سوالوں کا جواب نہ میں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی بینکنگ مجموعی بینکنگ سیکٹر کا ایک بڑا حصہ تو بن جائے گی مگر یہ اس پر غلبہ نہیں حاصل کر پائے گا۔
سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں مجموعی ڈیپازٹس میں اسلامک بنکنگ کا حصہ 18 فیصد تھا اور پرافٹ اردو کی کے تجزیے کے مطابق 2002ء سے 2019ء تک بینکنگ سیکٹر کے نئے ڈیپازٹس میں اسلامی بینکاری کا حصہ 20 فیصد ہے، اسلامک بنکنگ سیکٹر کے مجموعی نئے ڈیپازٹس کا انڈسڑی کے مجموعی نئے ڈیپازٹس میں حصہ 30 سے 35 فیصد ہے اور یہ اب تک اس سے آگے بڑھنے میں ناکام ہے۔
اس چیز سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی بنکنگ کی ترقی ایک حد تک ہی ہو رہی ہے، اس کے پیش نظر ممکن ہے کہ مستقبل میں بینکنگ سیکٹر کے کُل ڈیپازٹس میں اسلامک بینکنگ کا حصہ ایک تہائی ہو۔ اگرچہ یہ ایک بڑا حصہ ہے مگر اسے غالب حصہ نہیں کہا جاسکتا۔
لہٰذا اگر اسلامی بینکاری کا شعبہ بینکنک سیکٹر پر غالب آنے میں ناکام رہا تو ظاہر ہے کہ اس میں ہونے والی کسی تبدیلی کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے دوسرے حصوں پر پڑنے کے امکانات کم ہی ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: آخر یہ پیسہ جاتا کہاں ہے؟ اس بات سے پریشان ہیں تو آمدن اور اخراجات کے ‘حساب کتاب‘ کا یہ آسان طریقہ اپنائیں
مگر پاکسان میں کام کی جگہ پر مذہبی آزادی کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیلنٹ کی جنگ کا بھی کردار ہے، زیادہ تر لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں ملازمت فراہم کرنےوالے ادارے انہیں یہ بتائیں کہ کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔ باصلاحیت افراد کے پاس نوکریوں کی کمی نہیں ہوتی۔
اس چیز کا مشاہدہ اسلامی بینکاری سیکٹر میں بھی کرنے کو ملتا ہے، ایک اسلامی بینک کے ہیڈ آف انویسٹمنٹ نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ ’’کئی بار مجھے بہت مثالی اُمیدوار ملے جنہیں ملازمت پر رکھنا چاہتا تھا مگر حجاب پالیسی سے اختلاف کی وجہ سے انہون نے کام سے انکار کر دیا، میں سمجھتا ہوں کہ بطور بینک یہ ہمارا نقصان ہے جسے ہم اہمیت نہیں دیتے۔‘‘
’صلاحیت‘ وہ عنصر ہے جو پاکستان میں کام کی جگہوں پر شخصی آزادی کی فضاء کے مستقبل کا تعین کرے گا، صلاحیت کی تلاش میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اداروں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ وہ ملازمین کو مارکیٹنگ پروڈکٹ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے بلکہ انہیں اپنے ملازمین کو سوچتے اور سانس لیتے انسان ہی سمجھنا پڑے گا جن سے ان کی ترقی کے امکانات جڑے ہوئے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ باصلاحیت افراد چاہے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہوں وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ مذہب کے معاملے پر ان کے ساتھ آمرانہ رویہ اختیار کیا جائے، اسلامی بینک جتنی جلدی اس بات کا احساس کرلیں اتنی جلدی ہی صلاحیت کی جنگ میں اپنی شکست پر قابو پا سکیں گے۔