پشاور: پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) روٹ پر رکشے اور ٹیکسی چلانے پر پابندی کے خلاف رکشہ ڈرائیورز کی جانب سے دائرکردہ درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ٹرانس پشاور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
رکشہ ڈرائیور کی جانب سے رکشے اور ٹیکسی چلانے پر پابندی کے خلاف دائر کردہ درخواست سے متعلق پشاور ہائیکورٹ نے جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ٹرانس پشاور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو کیس کی سماعت کے لیے عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس قیصر رشید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بی آر ٹی سروس کچھ خرابیوں کے باعث اکثر کچھ دنوں بعد بند ہو جاتی ہے۔ ہر شخص ذاتی گاڑی نہیں رکھتا۔
جسٹس رشید نے سوال کیا کہ بی آر ٹی بسیں کھلے آسمان تلے کھڑی ہیں؟ جس پر ٹرانس پشاور کے نمائندے نے جواب دیا کہ یہ بسیں شدید موسمی اثرات کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بی آر ٹی سروس ایک ماہ کی بندش کے بعد دوبارہ بحال
ملک میں رواں برس بجلی سے چلنےوالی بسوں کی اسمبلنگ شروع ہوجائے گی
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر وہ بسیں شدید موسمی اثرات کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں تو کیا آپ انہیں کھلے آسمان تلے کھڑی کریں گے؟ کیا یہ بسیں آپ کو تخفے میں ملی ہیں یا یہ عوام کے ٹیکس سے خریدی گئی ہیں؟
اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے رکشوں اور ٹیکسیوں کے روٹ پرمٹ پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کرکے بی آر ٹی روٹ پر ان گاڑیوں کو چلانے کی پابندی عائد کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی روٹ 30 کلومیٹر پر محیط ہے، بی آر ٹی صوبائی دارالحکومت کی اہم شاہراوں سے گزرتی ہے۔
وکیل نے کہا کہ رکشے اور ٹیکسی عموماََ مریضوں، بزرگوں اور طلباء کی جانب سے استعمال کیے جاتے ہیں، اہم شاہراوں پر ان پر پابندی لگانے سے مسافروں کو مشکلات پیش آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے اقدام کے باعث ہزاروں رکشہ ڈرائیورز بےروزگار ہو جائیں گے۔