اسلام آباد: پاکستان نے اگلے برس مئی میں واپس کیے جانے والے تین ارب ڈالر کے چینی قرضے کی ادائیگی کی مدت میں اضافے کی درخواست دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔
یہ قرض دونوں ممالک کے درمیان مقامی کرنسی میں دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جانا تھا مگر اس کا زیادہ تر استعمال میچور ہونے والے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے ہوا۔
2011ء میں سٹیٹ بنک آف پاکستان اور پیپلز بینک آف چائنا کےدرمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے کرنسی سویپ (Currency swap) کا معاہدہ طے پایا تھا۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”2021ء میں ہم اس کرنسی سویپ معاہدے میں تین سال کی توسیع کا اردہ رکھتے ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بنک کے پاس اس وقت 12.1 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جس میں چین کے ساتھ کرنسی سویپ معاہدے کے تحت حاصل ہونے والے تین ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پے پال کا کرپٹو کرنسی کے استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ
چین، بھارت کے بجائے بڑے عالمی برانڈز پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا رُخ کیوں کر رہے ہیں؟
تاہم اگرسٹیٹ بنک آف پاکستان اس معاہدے کی ادائیگی کی مدت میں اضافہ کروانے میں ناکام رہا تو اسے یہ تین ارب ڈالر سے ہر صورت چین کو واپس کرنا ہوں گے۔
مزید برآں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لیا جانے والا چار ارب ڈالر کا قلیل مدتی قرض بھی اگلے چند ماہ میں میچور ہو جائے گا۔
اُدھر حکومت آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اس پروگرام کو منی بجٹ پیش نہ کیے جانے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کے باعث معطل کر رکھا ہے۔
پریشان کن امر یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کا یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو ملک کو رواں سال میچور ہونے والے 10.6 ارب کے قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔