ڈھاکا: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کی جانب سے عالمی معاشی صورتحال پر اکتوبر میں جاری ہونے والی رپورٹ میں حالیہ برسوں میں بنگلا دیش کی معاشی ترقی کی اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلا دیش ڈالر میں فی کس آمدن کے لحاظ سے پاکستان کو تو 2018ء میں ہی پیچھے چھوڑ چکا تھا مگر یہ رواں برس بھارت سے بھی آگے نکل جائے گا۔
تاہم اس کی بڑی وجہ بھارتی معیشت پر کورونا وائرس کے منفی اثرات ہیں مگر اُمید ہے کہ بھارت 2021ء میں اپنی معاشی صورت حال سنبھالنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس کی فی کس آمدن بھی پرانی سطح پر واپس چلی جائے گی۔
مگر موجودہ صورت حال سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ بنگلا دیش نے گزشتہ ایک دہائی میں ایسے معاشی اقدامات اُٹھائے ہیں جن کی بدولت وبا کے بحرانی دور میں بھی اس کے عوام خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہتر معاشی حالت میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ٹیکسٹائل سیکٹر میں اپنی دھاک بٹھانے کے بعد بنگلہ دیش اب کاریں بنائے گا
بنگلہ دیش کو پاکستانی برآمدات میں 41 فیصد کمی ، درآمدات میں 113 فیصد اضافہ
2018ء میں پاکستان کی فی کس آمدن ایک ہزار 558 ڈالر جبکہ بنگلا دیش کی ایک ہزار 662 ڈالر تھی ، 2011ء سے 2019ء تک کے عرصے میں بنگلا دیش کی فی کس آمدن میں سالانہ دس فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصے میں پاکستان کی فی کس آمدن میں سالانہ 3.4 اور بھارت کی فی کس آمدن میں 4.8 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔
2019ء میں پاکستان کی فی کس آمدن میں 13.4 اور بھارت کی 10.5 فیصد کمی واقع ہوئی، تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ فی کس آمدن کا مہنگائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی پیداوار میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے۔
لیکن بنگلا دیش کی شاندار ترقی میں کچھ دیگرعوامل کا بھی حصہ ہے جیسا کہ نجی شعبے کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری جس میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کار دونوں شامل ہیں ۔
1987ء میں پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری میں نجی شعبے کا حصہ 13.8 فیصد تھا جو بھارت اور بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ تھا مگر 2018ء میں بنگلا دیش میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری 23.2 فیصد، بھارت میں 21.9 فیصد اور پاکستان میں 11.8 فیصد رہی۔
بنگلا دیش میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ 1990ء کی دہائی میں دیکھنے میں آیا اور یہ 9.5 فیصد سے بڑھتا ہی چلا گیا، پاکستان میں سرمایہ کاری میں نجی شعبے کا کم ترین حصہ 10 فیصد رہا اور ایسا 2011ء میں ہوا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری میں جمود اور بنگلا دیش میں اس شعبے کی معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے کیا دونوں ملکوں میں فی کس آمدن کا فرق مزید بڑھے گا؟ اگر ہاں تو کتنا ؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔