اسلام آباد: پاکستان میں انٹرنیٹ براڈ بینڈ فراہمی کے سب سے بڑے فورجی آپریٹر جاز نے سال 2020ء کی تیسری سہ ماہی کے دوران فورجی سروسز کو وسعت دیتے ہوئے مجموعی طور پر تین ارب 70 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔
اس عرصہ میں جاز فورجی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 70 فیصد اضافہ کے ساتھ دو کروڑ 22 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ڈیٹا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد بڑھنے اور نیٹ ورک میں توسیع سے ڈیٹا کی آمدن میں 25.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جاز کے مجموعی صارفین کی تعداد پچھلے سال کے مقابلہ میں 8.5 فیصد اضافہ کے ساتھ چھ کروڑ 42 لاکھ ہو گئی ہے۔ سال 2020ء کی تیسری سہہ ماہی میں کورونا وباء اور لاک ڈائو ن کے باوجود جاز کی بنیادی آمدن میں سات فیصد اضافہ سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ٹیکس کی عدم ادائیگی ، اسلام آباد میں موبی لنک کا دفتر سیل کردیا گیا
جاز کا مرکزی دفتر سیل، ’اقدام سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچائے گا‘
چیف ایگزیکٹیو آفیسر جاز عامر ابراہیم کا کہنا ہے کہ یہ کارکردگی صارفین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے کی جانے والی جاز کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جاز کی جانب سے سال کی تیسری سہہ ماہی کے دوران نیٹ ورک میں اضافہ اور ڈیجیٹل سروسز بشمول معاشی خدمات کو جاری رکھا گیا۔
’ہم آج کی مساوی مواقع پیدا کرنے کے لئے ضروری ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
مذکورہ عرصہ کے دوران جاز نے ڈیجیٹل خدمات میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے اور جاز کیش کے ماہانہ متحرک صارفین کی تعداد 56 فیصد سالانہ اضافہ کے ساتھ مجموعی طور پر 97 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو ایف بی آر نے وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف 8 میں واقع پاکستان موبائل کمیونیکیشن لمیٹڈ (موبی لنک) کا صدر دفتر 22.03 ارب روپے کے ٹیکس اور 3.3 ارب کے ڈیفالٹ سرچارج کی عدم ادائیگی کی بناء پر سیل کر دیا تھا۔
ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے کمپنی کو سال 2018ء سے واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی کے لیے متعدد بار نوٹسز جاری کیے گئے مگر موبی لنک نے یہ ٹیکس جمع نہیں کروایا جس پر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔
دوسری جانب ترجمان جاز نے کہا ہے کہ ایف بی آر کی کارروائی 2018ء میں ایک متنازعہ ٹیکس رقم کی وصولی کے سلسلہ میں کی گئی جس کا معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جاز نے ہمیشہ قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کیا ہے، یہ مسئلہ بھی قانونی پہلووں کو سامنے لا کر باہمی مذاکرات سے حل کر لیا جائے گا۔