اسلام ٓباد: قومی اسمبلی میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی بل 2020ء پیش کر دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے چیئرپرسن اور اراکین کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔
جمعرات کو قومی اسمبلی اجلاس میں سی پیک اتھاٹی بل 2020ء حکومتی رکن بابر اعوان نے پیش کیا، بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی ایک چیئرپرسن کی سربراہی میں کام کرے گی، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آپریشنز یا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریسرچ سمیت اس کے چھ اراکین ہوں گے جن کی مدت چار سال اور قابل توسیع ہو گی۔
اتھارٹی کے چیئرپرسن، اراکین اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا تقرر کیلئے قواعد و ضوابط بھی وزیراعظم متعین کریں گے جبکہ ارکان کے تقرر کا اختیار بھی وزیراعظم کے پاس ہو گا۔
بل کے مطابق کسی ایسے شخص کو سی پیک اتھارٹی میں عہدہ نہیں دیا جائے گا جس سے مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
اتھارٹی کا چیئرپرسن سی پیک سے متعلق کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں تشکیل دینے اور اجلاس طلب کرنے میں بااختیار ہو گا، اتھارٹی کا ہر مالی سال میں سہ ماہی بنیادوں پر اجلاس ہو گا، اجلاس کا کورم کل ارکان کی تعداد کا دو تہائی ہو گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کاروباری کونسل بھی قائم کی جائے گی، سی پیک فنڈ وزارت خزانہ کی منظوری سے تشکیل دیا جائے گا جبکہ حسابات کی جانچ پڑتال آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرے گا۔
مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کے ملازمین سول ملازمین تصور نہیں ہوں گے۔
اتھارٹی سی پیک منصوبوں کے حوالے سے آسانی پیدا کرنے، محکموں میں رابطہ کاری بڑھانے، فیصلوں کے نفاذ، منصوبوں کی نگرانی اور ان کی جانچ کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اس بل کے قانون بننے تک سی پیک سے متعلقہ سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گے، اتھارٹی اپنے امور کی انجام دہی کے لیے مربوط معلومات طلب کر سکے گی اور اس حوالے سے کسی بھی اتھارٹی یا ایجنسی، صوبائی یا مقامی حکومت سے سہولت حاصل کر سکے گی۔
’ایک شخص کو این آر او دینے کی کوشش‘
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضاربانی نے سینیٹ میں توجہ دلائو نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک آرڈیننس جون میں ختم ہو چکا، کسی قانون کے بغیر سی پیک اتھارٹی کام کر رہی ہے، حکومت نے سی پیک آرڈینس کو جان بوجھ کر ختم ہونے دیا کیونکہ وہ اسے پسِ پشت ڈالنا چاہتی ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ حکومت اب ایک نیا بل لائی ہے جس کے تحت سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین اور ممبران کو استثنٰی دینے جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب اداروں پر نیب کا قانون لاگو ہو اور ایک ادارے کو استثنٰی ہو، کیا یہ ایک شخص کو این آر او دینے کی کوشش ہے؟
وزیر اطلاعات کا جواب
رضا ربانی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ سی پیک کسی سیاسی جماعت کا منصوبہ نہیں، یہ چین اور پاکستان کی حکومتوں اور عوام کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کو غیر سیاسی بنانے اور کام کو آگے بڑھانے کے لئے اتھارٹی بنائی اور آرڈیننس کے ذریعے اس کا قیام عمل میں لایا گیا، بدقسمتی سے ملک میں قومی مفاد کا کوئی بھی کام ہو اپوزیشن اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے اور اس پر اعتراضات کرتی ہے۔
شبلی فراز کے مطابق انہوں (اپوزیشن) نے قائمہ کمیٹیوں میں منظور ہونے والے فیصلوں کو بھی خود مسترد کیا، سچ سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے لیکن یہ سچ نہیں سن سکتے، سی پیک پر بھرپور طریقے سے کام جاری ہے اور یہ پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان مضبوط رشتے کی علامت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک اتھارٹی کو ناکام کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ایوان میں پیش کی جانے والی یہ تحریک بدنیتی پر مبنی ہے، بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں بھی آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کسی ادارے کو بھی نہیں چھوڑا، سی پیک کے سیاسی، قانونی، خارجہ اور دیگر پہلو ہیں، یہ چین اور پاکستان کے عوام کا منصوبہ ہے، اس پر بات کے خلاف بات کرنے سے دوستوں کو غلط پیغام جاتا ہے اور دشمنوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ لوگ دوستوں کو غلط پیغام نہ دیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ پچھلی حکومت نے سی پیک کو ذاتی منصوبہ بنا دیا تھا، ہم چاہتے ہیں کہ اسے غیر سیاسی کیا جائے، ہم نے وہ ادارے مضبوط کئے ہیں جو سابق حکومت نے تباہ کئے تھے اور ملک کو گروی رکھوا دیا تھا۔