اسیری کے باوجود انور مجید اپنی شوگر ملز کے سی ای او برقرار، مگر کیسے؟

اومنی گروپ کے سربراہ ملکی تاریخ میں کرپشن کے سب سے بڑے سکینڈل کے ملزم ہونے کے ناطے جیل میں ہیں مگر وہ اپنی کمپنی کا چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں، خود کو اس عہدے سے ہٹانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں وہ عدالت کی مدد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں

1964

تصور کریں کہ سنہ 2000ء کی دہائی میں آپ ایک معقول کاروباری شخصیت ہیں، آپ نے زیادہ کچھ نہیں تو سندھ میں شوگر ملیں لگانا شروع کی ہیں، آپ اپنا کام بخوبی جانتے ہین، لیکن اس سے بھی بڑھ کر آپ ایک وفادار دوست ہیں، اور اس وفاداری کا معترف آپ کا دوست بھی ہے۔

ایک دن آپ کا دوست صدر پاکستان بن جاتا ہے اور وہ آپ سے کہتا ہے کہ آپ اس کیلئے زیاد ہ کچھ نہیں مگر تھوری بہت منی لانڈرنگ کر دیا کریں، ظاہر ہے جس قسم کے آپ نرم دم ہیں، آپ دوست کا کام کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں، بدلے میں دس سالوں کے اندر اندر آپ کا کاروباری گروپ جو محض چھ کمپنیوں پر مشتمل تھا وہ 83 کمپنیوں کا مالک بن جاتا ہے، بظاہر یہ زبردست سودا ہے۔

مزید تصور کیجیے کہ آپ کی شوگر ملیں پیسہ چھاپ رہی ہیں، آپ اپنے گھر کے ایک حصے کی تزئین و آرائش پر ایک کروڑ 10 لاکھ روپے خرچ کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ آپ کے پاس اپنی بہو کو بوتیک کھول کر دینے کے لیے بھی وافر پیسہ موجود ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایف بی آر کی کارروائی، 31 ارب روپے مالیت کی 146بے نامی جائیدادیں ضبط

اربوں روپے کے پینشن اسکینڈل کی کہانی ۔۔۔۔۔۔

وفاقی کابینہ نے ایگزم بنک آف پاکستان ایکٹ 2020 کے نفاذ کی منظوری دے دی

چشم تصور سے اَب یہ بھی دیکھیے کہ ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کے دوست کے کرتوتوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اسے اور آپ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں، جیل میں بیٹھ کر آپ یقیناً اپنے فیصلوں پر غور کر رہے  ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ منی لانڈرنگ کے لیے حامی  نہیں بھرنی چاہیے تھی۔

اس وقت آپ کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہو گا کہ آپ کوئی وکیل کر کے اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ آپ  کی شوگر ملز آپ کو چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے عہدے سے ہٹا نہ دے۔

جو باتیں آپ تصور کر رہے ہیں یہی سب انور مجید کے معاملے میں حقیقت ہیں جو اس وقت کوشاں ہیں کہ وہ انصاری شوگر ملز کے سربراہ برقرار رہیں مگر مل کی انتظامیہ ایسا نہیں چاہتی۔

انور مجید کے بارے میں یہ باتیں ہم نہیں کہہ رہے بلکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم  (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں کہی گئی ہیں، یہ رپورٹ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات پر مبنی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ انور مجید کے اومنی گروپ کی زیادہ تر کمپنیوں نے شیل کمپنیوں کا کردار کرتے ہوئے آصف زرداری کو منی لانڈرنگ میں معاونت فراہم کی۔

تاہم جنوری 2020ء میں، جب انور مجید جیل میں تھے تو انہیں اس بات کا علم ہوا کہ انصاری شوگر ملز اپنے سٹیک ہولڈرز کا سالانہ اجلاس بلانا چاہتی ہے تو انہوں نے کمپنی کے اس اقدام کے خلاف عدالت میں درخواست دے دی۔

واضح رہے کہ انور مجید ناصرف اس شوگر ملز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور ڈائریکٹر ہیں بلکہ  وہ اس کے 51.3 فیصد حصص کے مالک بھی ہیں۔

انور مجید کی درخواست اور ان کے وکیل کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے انصاری شوگر ملز کو سالانہ اجلاس بلانے سے روک دیا اور معاملے پر حکم امتناع جاری کر دیا۔

مختصر یہ کہ انور مجید کسی قیمت پر اپنی کمپنی کا کنٹرول نہیں کھونا چاہتے یہاں تک کہ جیل میں بیٹھ کر بھی نہیں۔

اگرچہ یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ کوئی کمپنی اپنے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی مسلسل غیر موجودگی یا اس کے ملکی تاریخ میں کرپشن کے بڑے کیس کے ملزم کے طور پر جیل میں ہونے کی صورت میں نیا سی ای او تعینات کر دے۔

مگر انصاری شوگر ملز کے کیس میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے بھی  ابھی تک کسی کو کمپنی کا عبوری چیف ایگزیکٹیو آفیسر تعینات نہیں کیا ( ممکن ہے کہ انور مجید کے کیس میں مدعا علیہ  ہونے کے ناطے اسے حکم امتناع ختم ہونے تک  ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہو)۔

جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ جیل میں بیٹھ کر بھی کمپنی کے بارے میں سوچنا انور مجید کے ایک اچھے سی ای او ہونے کی نشانی ہے، یہ وفاداری کی ایک بڑی مثال ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here