حکومت نے کارکے کیخلاف 12کروڑ 80 لاکھ ڈالر واجبات کا دعویٰ واپس لے لیا

یہ دعوی ترک رینٹل پاور کمپنی کے ساتھ ثالثی کو آگے بڑھانےکے لیے واپس لیا گیا، کارکے کو 231.8 میگاواٹ کے رینٹل پاور پلانٹ کی مد میں 80 ملین ڈالر کی ڈاؤن پیمنٹ کی گئی تھی جس کے لیے نیشنل بنک سے قرض لیا گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے رینٹل پاور پراجیکٹس ختم کرنے کے بعد کارکے نے یہ رقم واپس نہیں کی ۔

853

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے رینٹل پاور کیس میں ترک کمپنی کارکے کے ساتھ ثالثی آگے بڑھانے کے لیے 128 ملین ڈالر (12 کروڑ 80 لاکھ) کے واجبات کا دعویٰ واپس لے لیا۔

پاکستان نے یہ دعویٰ انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل میں دائر کر رکھا تھا اور ذرائع کے مطابق حکومت نے یہ دعویٰ کارکے کے ساتھ 20 دسمبر 2019ء کو طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت واپس لیا ہے۔

اس معاہدے کی وجہ سے لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی نیشنل بنک سے لیا جانے والا چھ ارب روپے کا قرضہ واپس نہیں کر سکی۔

تاہم ذرائع نے مزید بتایا کہ نینشل بنک نے یہ قرضہ واپس مانگ لیا ہے اور پاور ڈویژن نے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) سے اس قرض کی معافی یا پھر بنک کو تمام قرضہ بمع سود اور دیگر چارجز کے بطور گرانٹ ادا کرنے کی سفارش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیے: 

حکومت کا بجلی، گیس، زراعت کیلئے اربوں کی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ

کارکے کیس : پاکستان کو جرمانے سے بچانے والی ٹیم کو ستارہ امتیاز دینے کا فیصلہ

اس سفارش کے جواب میں ای سی سی نے پاور ڈویژن کو یہ کیس سٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کے ساتھ مشاورت کے بعد فنانس ڈویژن کو بھیجنے اور اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس حوالے سے پراٖفٹ اردو کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ قرض نیشنل بنک اور لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ کے درمیان 9 مئی 2009ء کو طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت حکومت کی گارنٹی کے ساتھ جاری کیا گیا تھا اور اس کا استعمال 231.8 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کی مد میں کارکے کو آٹھ کروڑ ڈالر ڈاؤن پیمنٹ کے لیے کیا گیا تھا۔

نیشنل بنک آف پاکستان کو یہ قرضہ 10 کروڑ 60 لاکھ روپے کی 60 اقساط میں واپس کیا جانا تھا جن کا آغاز31 دسمبر 2009ء ہوا اور انھیں 30 نومبر 2014ء تک اختتام پذیر ہونا تھا۔

231.8 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کا یہ معاہدہ حکومت پاکستان نے 6 نومبر 2008ء کو کارکے کو دیا تھا جسے چلانے کی ذمہ داری لاکھڑا پاور جنریشن کو دی گئی تھی، ملک میں رینٹل سروسز کانٹریکٹ کا آغاز 5 دسمبر 2008ء اور ان پر نظرثانی 23 اپریل 2009ء کو ہوئی۔

تاہم 30 مارچ 2012ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرائے کے بجلی گھروں کے تمام معاہدوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو ان کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس پر کارکے نے انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس میں پاکستان کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا تھا، مزید برآں رینٹل پاور کا منصوبہ ختم کر دیے جانے کی وجہ سے نیشنل بنک سے لیا جانے والا قرض بھی واپس نہیں ہو سکا۔

اس قرض کی بمع سود و دیگر چارجز واپسی کے لیے نیشنل بنک آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کا فیصلہ اس کے حق میں آیا تھا تاہم کارکے کے ساتھ ثالثی کی کوشش میں اس قرض کے دعوے کو واپس لے لیا گیا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here