شوگر انڈسٹری میں عدم مسابقتی سرگرمیوں کے حوالے سے انکوائری مکمل

836
Sack with pure sugar on table

اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی شوگر انڈسٹری میں مبینہ مسابقتی عمل کے برخلاف سرگرمیوں سے متعلق انکوائری مکمل ہو گئی، سی سی پی نے قواعد کی خلاف ورزیوں پر کارروائی شروع کرنے کی تجویز پیش کر دی۔

سی سی پی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’وافر سپلائی کے باوجود صارفین کو سستے نرخوں پر چینی دستیاب نہیں، چینی کی کم نرخوں پر فراہمی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مشروبات کی فیکٹریاں اور بیکریاں سب سے زیادہ چینی خریدتی ہیں لیکن شوگر انڈسٹری میں عدم مسابقت کے باعث وہ متاثر ہوئیں، زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے بین الاقوامی مسابقتی عمل بھی متاثر ہوا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن اور رمضان بازاروں کو سرکاری پیسے سے بھاری سبسڈی دی گئی لیکن صارفین کو مناسب قیمت پر چینی پھر بھی نہیں ملی۔

رپورٹ کے مطابق شوگر انڈسٹری میں کافی عدم مساوات پایا جاتا ہے، کچھ ملز ٹھیک کام کر رہی ہیں اور کچھ غلط کاریوں میں ملوث ہیں تاہم کارٹلز کی موجودگی کی وجہ سے غیرمؤثر ملز کو تحفظ فراہم کیا گیا، سی سی پی نے تجویز دی کہ ایسی شوگر ملز کے خلاف  مسابقی ایکٹ کے سیکشن 30 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

کابینہ اجلاس، وزیرِاعظم نے گندم، چینی کی قیمتوں میں اضافے پر رپورٹ طلب کر لی

مسابقتی کمیشن حکام کا جہانگیر ترین کی شوگر ملز کے ہیڈ آفس پر چھاپہ، اہم ریکارڈ قبضہ میں لے لیا

واضح رہے کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے ک بعد وفاقی حکومت نے متعلقہ اداروں کو شوگر مافیا کے خلاف تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے سی سی پی، سندھ اور پنجاب کے چیف سیکرٹریز، سٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف آئی اے، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر کو معاملے کی جامع تحقیقات کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔

سی سی پی نے 19 دسمبر 2019 کو منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں شوگر انڈسٹری میں ممکنہ عدم مسابقتی سرگرمیوں میں مصدقہ تفتیش کرنے کے لیے کمپی ٹیشن ایکٹ 2010ء کے سیکشن 37(1) کے تحت کمیٹی تشکیل دی تھی۔

انکوائری کے عمل کے دوران سی سی پی کو معلوم ہوا کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں قائم کی جانے والی کئی شوگر ملز ابھی بھی بوسیدہ ٹیکنالوجی، کم ریکوری کے تناسب اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باوجود فعال ہیں جس سے پتا چلا کہ یہ شوگر ملز مؤثر اور بہتر ٹیکنالوجی کی حامل ملز کا مقابلہ نہیں کر رہیں بلکہ انڈسٹری کے انتظامی آپریشن کے ذریعے ہر مل کو کچھ حد تک معاوضہ دیا جارہا ہے۔

سی سی پی کی رپورٹ میں شوگر ملز کے اخراجات کی معلومات کے تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیداواری اخراجات، ریکوری کا تناسب، گنے کی قیمت خرید سمیت تمام عوامم میں فرق ہے جن کی بنیاد پر پیداواری لاگت طے ہوتی ہے۔

حتیٰ کہ ایک ہی علاقے میں واقع شوگر ملز کی پیداواری لاگت مختلف پائی گئی، 2018-19ء کی چینی کی پیداواری لاگت کے موازنے سے انکشاف ہوا کہ پنجاب اور سندھ میں چینی کی پیداواری لاگت بالترتیب 46.61 روپے سے 78.60 روپے فی کلو اور 47.20 روپے فی کلو سے 66.74 روپے فی کلو کے لگ بھگ رہی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here