اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے کہا ہے کہ پاکستان باسمتی چاول پر بھارتی دعویٰ یورپی یونین میں چیلنج کرے گا، انڈیا نے کئی سال پہلے جی آر رولز پاس کر چکا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان نے رواں سال پاس یہ رولز پاس کیے ہیں، ان رولز کے تحت 78 آئٹمز وزارت کامرس کے دائرہ اختیار میں آگئی ہیں جنہیں تحفظ دیا جائے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس کا اجلاس چیئرمین سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا، اجلاس میں سب سے پہلے ایرانی سیب کی امپورٹ کی اجازت دینے کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ پلانٹ پروٹیکشن آف پاکستان کے محکمے کا ایک وفد ایران میں جا کر سیب کے حوالے سے سروے کرتا ہے، وہاں ماحول اور دیگر چیزوں کو تفصیلی طور پر دیکھا جاتا ہے مگر رواں سال کورونا وباء کی وجہ سے وفد نہیں جا سکا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگر دوسرے ملک پاکستان سے کوئی چیز درآمد کرنا چاہیں تو وہاں کے ماہرین بھی پاکستان آ کر سروے کرتے ہیں، سیب کی درآمد ہائی سیکورٹی رسک ہوتی ہے، اس حوالے سے ایران سے تکنیکی مدد بھی حاصل کی گئی ہے۔
کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ 2018-19ء میں 3.16 میٹرک ٹن سیب ایران سے درآمد کیا گیا تھا جبکہ رواں سال کورونا کی وجہ سے درآمد نہیں ہوا جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایران میں سیب چیک کرنے کی بجائے بارڈر پر میکنزم بنایا جائے۔ انسپکٹرز کی ضرورت بارڈر پر ہوتی ہے کہ وہ اجناس کو چیک کریں کہ کہیں مضرصحت تو نہیں ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت کامرس کا کام پالیسی بنانا ہے اور جو فوڈ آئٹمز درآمد ہوتی ہے ان کے حوالے سے ان کے متعلقہ محکمے سے چیک کرایا جائے۔ بارڈ پر اور ملک میں چیک کرانا وزارت قومی تحفظ خوراک کا کام ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کے 26 اگست 2020ء کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ہمسائیہ ممالک سے امپورٹ کی اجازت کی وجہ سے بلوچستان کے ٹماٹر اور پیاز کے کم نرخ کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ جب بلوچستان میں ٹماٹر اور پیازکی فصلیں تیار ہوتی ہے تو امپورٹ کی اجازت نہیں دینی چاہیے تاکہ ملک کی ضرورت بلوچستان کی پیداوار سے پوری کی جائے اور وہاں کے کسانوں کو فائدہ ہو سکے۔
انہوں نے اعتراض کیا کہ جب بلوچستان میں پیاز اور ٹماٹر کی فصلیں تیار ہوتی ہے تو دیگر ممالک سے اجناس آنے کی وجہ سے نہ صرف ان کے نرخ متاثر ہوتے ہیں بلکہ کسانوں کو نقصان بھی ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اُس وقت امپورٹ پر پابندی لگائے۔
اس پر وزارت کامرس کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک متوازن طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے اگر امپورٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی تو ملک میں قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں، ملک میں امپورٹ اور ایکسپورٹ دونوں کی اجازت ہے تاہم معزز سینیٹر کے ایشو کے حوالے سے تمام عوامل کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے تیار فصل کے وقت اجناس کی امپورٹ پر پابندی کی سفارش کر دی۔
قائمہ کمیٹی کو باسمتی چاول کی جی آئی ٹیگ رجسٹریشن کے حوالے سے بھارت کی یورپی یونین میں درخواست کے حوالے سے تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ بھارت نے جی آئی ٹیگ کیلئے یورپی یونین میں درخواست دی ہے اور 11 ستمبر کو یورپی یونین کے اخبار میں بھی چھپی ہے کہ اگر اس سے کسی کو مسئلہ ہے تو وہ آگاہ کر سکتا ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2006ء میں یورپی یونین تسلیم کر چکا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی باسمتی چاول پر ریگولیشن حاصل ہے، باسمتی چاول کی 12 اقسام ہیں، یورپی یونین نے ہر شعبے میں ریگولیشن بنا رکھی ہے۔
اس پر معاون خصوصی برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے کہا کہ انڈیا نے کئی سال پہلے جی آر رولز پاس کر دیئے تھے مگر بدقسمتی سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے رواں سال پاس کیے ہیں، یہ حکومت کا بہت بڑا فیصلہ ہے، اب وزارت کامرس کے پاس اختیار ات آئے ہیں اور اس کے تحت 78 آئٹمز آئی ہیں ان کو تحفظ دیا جائے گا۔
حکام نے کہا کہ بھارت نے غلط دعویٰ کیا ہے کہ باسمتی چاول کی پیداوار صرف ان کے ملک میں ہوتی ہے، یورپی یونین پہلے ہی مان چکا تھا، پاکستان انڈیا کو اس پر چیلنج کرے گا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان سات لاکھ ٹن چاول ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں سے50 فیصد یورپی یونین کو جاتا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ معاملے کو بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے اور بھارت کے غلط دعویٰ کو دنیا بھر میں جھوٹا ثابت کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کو ای کامرس پالیسی بارے بھی آگاہ کیا گیا۔ عبدالرزاق دائود نے کہا کہ ای کامرس کے حوالے سے پہلے میکنزم نہیں تھا، اب بنایا گیا ہے مگر ابھی بھی مکمل طور پر مطمعن نہیں ہوں، کچھ شکایات موصول ہوئی ہیں اس کو مزید بہتر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک کا بنیادی کام ہے، اس کیلئے ورکنگ کیپٹل چاہیے ہوتا ہے، وزارت کامرس نے سٹیٹ بنک پاکستان کے سامنے معاملہ اٹھایا ہے اور ایک سکیم بنائی جا رہی ہے جس میں سٹیٹ بنک کمرشل بنکوں کو گارنٹی دے گا، 60 فیصد رسک کمرشل بنک اور 40 فیصد سٹیٹ بنک اٹھائے گا جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ چونکہ ای کامرس کے حوالے سے ورکنگ پیپر ابھی ملے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لے کر کمیٹی کے آئندہ کے اجلاس میں اس پر تفصیلی بریفنگ اور جائزہ لیا جائے گا۔