اسلام آباد: چیئرمین فیڈرل بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) جاوید غنی نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں ریفارمز ونگ قائم کر دیا گیا ہے، ڈیجٹلائزیشن اور آٹومیشن کے ذریعے ایسا نظام لایا جا رہا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی اپنی دولت چھپا نہیں سکے گا، ٹیکسیشن کے نظام میں انسانی عمل دخل ختم ہونے سے کرپشن کے خاتمے سمیت ٹیکس وصولیوں کے اہداف یقینی بنائے جا سکیں گے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس منگل کو چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سید نوید قمر، حنا ربانی کھر، سید حسین طارق، ریاض فتیانہ، نور عالم خان، شیخ روحیل اصغر، سینیٹر مشاہد حسین سید، ثناء اللہ مستی خیل، اقبال محمد علی خان ، آغا حسن بلوچ، ابراہیم خان، ملک عامر ڈوگر، خواجہ شیراز محمود، سردار ایاز صادق، خواجہ محمد آصف سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
اجلاس میں ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا۔ چیئر مین پی اے سی نے ارکان کو بتایا کہ چیئرمین نیب کچھ علیل ہیں، صحت یاب ہونے پر انہیں اجلاس میں مدعو کر کے تمام زیر تفتیش کیسز کے حوالے سے بات کریں گے۔
سردار ایاز صادق اور نور عالم خان نے کہا کہ گذشتہ اجلاس میں ان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات منٹس میں شامل نہیں ہیں، اس بناء پر کمیٹی نے دوبارہ منٹس بنانے کی ہدایت کی۔
ریفنڈز کے حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے بریفننگ میں بتایا گیا کہ سیلز ٹیکس کی مد میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 118 ارب اور انکم ٹیکس کی مد میں 56 ارب 60 کروڑ کے ریفنڈز کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس سسٹم کو سادہ، آسان اور بہتر بنا دیا گیا ہے، زیادہ سے زیادہ انسانی عمل دخل ختم کر دیا گیا ہے، ہم اس سلسلے میں مکمل انسانی عمل دخل ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، نان فاسٹر ریفنڈز کے تحت بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کورونا کی صورتحال کے باوجود رواں سال بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ بنکوں، ڈسکوز، موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز سمیت بہت سے اداروں کے سسٹم اپڈیٹ نہ ہونے کی بناء پر ریفنڈز کی ادائیگیوں میں تاخیر ہوتی ہے جن ریفنڈز درخواستوں کی تصدیق ہو جائے وہ ہم ادا کر دیتے ہیں۔ واجب الادا ریفنڈز کا کلیم 345 ارب ہے۔
پی اے سی نے کہا کہ جس کے کم ریفنڈز ہیں اسے رقم فوری ادا کرنے کی پالیسی کی بجائے تمام لوگوں کو منصفانہ ادائیگی کے لئے تناسب کے لحاظ سے طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت ملک بھر کی ماتحت عدالتوں میں 1856 ارب روپے کے ٹیکس کیسز زیرسماعت ہیں اور عدالتی چارہ جوئی کے لئے ایف بی آر کو سالانہ 6 کروڑ روپے ملتے ہیں جو بہت کم ہیں، اچھا وکیل کروڑوں میں فیس لیتا ہے، ہمیں سپریم کورٹ سے بھی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے کر جانا چاہیے۔ صرف 6 کروڑ سے 1856 ارب کی رقم ریکور نہیں ہو گی۔
چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایف بی آر کی پوری مدد کرے گی، ہم سپریم کورٹ سے بھی درخواست کریں گے، ایف بی آر میل ملاپ کا طریقہ کار ختم کرے اور اپنے ٹربیونلز کو بھی فعال کرے۔
اس حوالے سے چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ رواں سال ٹیکس ہدف 4300 ارب روپے مقرر کیا ہے تاہم کورونا کی صورتحال اور معیشت کی بدحالی کی وجہ سے ہم دباﺅ کا شکار ہیں۔
ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ کہ ایف بی آر اپنے اخراجات کے لئے فنڈز وزارت خزانہ سے لیتا ہے۔
پی اے سی نے ہدایت کی کہ انکم ٹیکس کے 45 ارب کے تیار ریفنڈز جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام انکم ٹیکس کمشنرز کو یہ ہدایت جانی چاہیے کہ ریکوریوں کےلئے فعال کردار ادا کریں۔ پی اے سی اٹارنی جنرل سے درخواست کرے کہ عدالتوں میں زیر سماعت کیسز کی جلد سماعت اور فیصلوں کے حوالے سے ایف بی آر کی معاونت کرے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بڑے ٹیکس ڈیفالٹرز کے نام منظر عام پر لائے جائیں۔
ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ عدالتوں سے رجوع کیا جا رہا ہے۔ ٹریبیونلز بھی متحرک ہو رہے ہیں، ایسا نظام لا رہے ہیں جس کے تحت کسی کے لئے بھی اپنی دولت چھپانا ممکن نہیں ہو گا، آٹو میشن کے ذریعے شناختی کارڈ اور بینکوں کے ڈیٹا سے رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں پر ہاتھ ڈالا جا سکے گا۔
اس موقع پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ لوگوں کا ڈیٹا غیر محفوظ ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایف بی آر کے حوالے سے اب تک تجربات کئے جا رہے ہیں، سنجیدہ اقدامات کا فقدان ہے۔ چیرمین ایف بی آر نے کہا کہ میرا تعلق کسٹم سے ہے، اب یہ ذمہ داری مجھے ملی ہے۔ ہم تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے شبر زیدی کے صحت کے مسائل پیدا ہوئے۔ آٹومیشن پر کافی حد تک کام ہو چکا ہے۔ حکومت بھی انتہائی تیز رفتاری سے کام کرنے کی خواہاں ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے مزید کہا کہ ٹیکس وصولیوں کے نظام میں انسانی عمل دخل ختم کیا جا رہا ہے، انسانی وسائل کو بہتر بنانے سمیت آپریشن ، قانونی چارہ جوئی کے شعبوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ریفارمز کے لئے الگ ونگ قائم کر دیا ہے۔ درآمدات کم ہونے کی وجہ سے ٹیکس کم وصول ہوئے ہیں، مقامی ٹیکسوں بالخصوص سیلز ٹیکس میں گروتھ بہتر ہوئی ہے۔
اس موقع رکن اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ سکول یونیفارمز اور کتابوں پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیئے۔ ایف بی آر نے بتایا کہ ہمارے پاس ٹیکس ریکوری کے لئے ملک بھر میں صرف سات ہزار ملازمین ہیں، ہمیں اس شعبہ میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔