اسلام آباد: وفاقی حکومت نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے متعلق قواعد وضوابط جاری کر دیے ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق انسدادِ منی لانڈرنگ کے یہ قوانین پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں جس کے تحت ترسیلاتِ زر بینکنگ چینل کے ذریعے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی اجازت ہو گی، تاہم برآمدت اور سروسز کی ادائیگی کرنے کی صورت میں یہ رقوم فارن کرنسی اکاؤنٹ میں نہیں آئیں گی۔
اس کے علاوہ پاکستان کے اندر یا باہر فراہم کی گئی خدمات پر ادائیگی، غیرملکیوں کو جاری یا فروخت کی گئی سکیورٹیز کی رقوم اور سٹیٹ بینک کی عمومی یا خصوصی اجازت کے تحت بیرونِ ملک سے حاصل کردہ زرِ مبادلہ بھی فارن کرنسی اکائونٹس میں رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے:
سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر میں کمی
فن سین فائلز: ’44 بھارتی بنک منی لانڈرنگ، منشیات فروشوں، دہشتگردوں کی مالی معاونت میں ملوث‘
تاہم، نیا قانون بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو مختلف طرح سے پاکستان میں رقوم بھیجنے کی اجازت دیتا ہے، انفرادی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ میں دوسرے انفرادی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ سے رقم کریڈٹ ہو سکتی ہے۔
قواعد کے مطابق، پرافٹ، ریٹرن اور غیرملکی کرنسی یا حکومتِ پاکستان کی جاری کردہ سکیم میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی رقوم کو اکاؤنٹ میں جمع کیا جا سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق سٹیٹ بینک کی کسی بھی عمومی یا خصوصی اجازت کے لیے اکاؤنٹ میں رقم کریڈٹ ہو سکتی ہے۔
انفرادی فارن کرنسی اکاؤنٹ میں مستند ڈیلر، ایکسیچنج کمپنی یا منی چینجر سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی کسی بھی قانون کے تحت مرکزی بینک کی عمومی یا خصوصی اجازت کے بغیر جمع نہیں کروائی جا سکتی۔
تاہم بیرون ملک سے لائی گئی اور پاکستان کسٹمز سے کلیئر کی گئی کرنسی اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی جا سکتی ہے، قواعد کے مطابق اس صورت میں فارن کرنسی اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے یا منتقل کرنے کے لیے کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔