پاکستان میں سٹیل کمپنیاں کھل کر اپنی برانڈنگ کرتی ہیں، ان کا نام اشتہارات کی صورت ناصرف ٹی وی سکرینوں پر نظر آتا ہے بلکہ ملک بھر میں موجود سٹیل ڈسٹری بیوٹرز کی دکانوں پر بھی جا بجا ان کا لوگو نظر آتا ہے۔ آغا سٹیل بھی انہی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو ہمہ وقت کوشاں ہے کہ وہ سٹیل خریداروں کی نگاہ میں رہے۔
کراچی کے ایمرالڈ ٹاور (Emerald Tower) میں واقع کمپنی کے ہیڈ آفس میں آغآ سٹیل ان کا سرمئی اور نارنجی رنگ کا لوگو ہر چیز پر چسپاں نظر آتا ہے حتیٰ کہ چائے یا کافی کے مگ پر بھی۔
یہاں تک کہ کمپنی کے سی ای او حسین آغا کی نارنجی رنگ کی ٹائی پر بھی کمپنی کا لوگو لگا ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے خاندان کے کاروبار کی ترقی کے حوالے سے بہت خوش ہیں، اس حوالے سے وہ اپنی بات کا آغاز اِن الفاظ سے کرتے ہیں کہ ’خدا کی بہت مہربانی ہے۔‘
وہ اپنے کاروبار کی ترقی سے کافی حیران بھی نظر آتے ہیں، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ خدا آغا سٹیل پر واقعی بہت مہربان ہے۔ صرف آٹھ سال پہلے قائم ہونے والی کمپنی نہ صرف اپنا خود کا سٹیل پیدا کرتی ہے جو پاکستان میں ایک بھرپور کامیابی سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ عمرمیں اپنے سے بڑی کمپنیوں جیسا کہ امریلی سٹیل اور مغل آئرن اینڈ سٹیل کی حریف بن گئی ہے۔ 2014ء سے 2017ء تک کے تین سالوں میں کمپنی کی آمدن میں مجموعی طور پر 33 فیصد اضافہ ہوا۔
اب کمپنی نے پہلے آئی پی او ( initial public offering) کے لیے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دی آرگینک میٹ کمپنی اور ٹی پی ایل ٹریکر کے بعد رواں سال کا تیسرا آئی پی او ہے، حسین آغا اس آئی پی او اور اپنی کمپنی کے مستقبل سے کافی پُرامید نظر آتے ہیں۔
سٹیل انڈسٹری
2019ء میں سٹیل کی عالمی پیداوار ایک ہزار 867 ملین ٹن رہی جو 2018ء کی نسبت 3.4 فیصد زیادہ تھی، تاہم ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو چھوڑ کر دنیا کے تمام خطوں میں سٹیل کی پیداوار میں کمی آئی۔ صرف چین نے 2019ء میں اپنی سٹیل کی پیداوار 996 ملین ٹن تک بڑھا لی یوں عالمی سطح پر خام سٹیل کی پیداوار میں اس کا حصہ 50.9 فیصد سے بڑھ کر 53.3 فیصد ہو گیا ہے۔
پاکستان میں سٹیل کی سالانہ طلب 7.1 ملین ٹن ہے جس کا 45 فیصد بیرون ملک سے درآمد کرکے پورا کیا جاتا ہے، ملک میں فی کس سٹیل کا استعمال بھی بہت کم ہے، سٹیل کے استعمال کو آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو فی کس کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر ہے جہاں سب سے کم سٹیل استعمال ہوتا ہے، دنیا میں سٹیل کا فی کس استعمال 240 کلوگرام ہے جبکہ پاکستان میں 37 کلوگرام ہے۔
مقامی سطح پر سٹیل کی صنعت دو ذیلی صنعتوں میں تقسیم کی جاتی ہے، ایک حصہ فلیٹ پراڈکٹس (flat products) یعنی کوائلز اور شیٹس بناتا ہے جبکہ دوسرا لانگ پراڈکٹس یعنی سریا وغیرہ (rebars and billets) بناتا ہے۔ پاکستان میں لانگ پراڈکٹس 75 فیصد مقامی طور پر ہی بنتی ہیں اور ایسی سٹیل ملز کی تعداد 600 کے قریب ہے جن کی سالانہ پیداوار 50 لاکھ ٹن ہے۔
لانگ پراڈکٹس مزید دو حصوں یعنی گریڈڈ (graded) اوراَن گریڈڈ (ungraded) میں تقسیم کی جاتی ہیں، گریڈڈ کا لانگ پراڈکٹس میں حصہ 25 فیصد ہے اور یہ زیادہ تر چھوٹی سٹیل ملز میں برقی بھٹیوں میں تیار ہوتی ہیں جو کہ کافی پرانا طریقہ ہے۔
اَن گریڈڈ سٹیل سب سے زیادہ تیار کیا جانے والا فولاد ہے جو اصل میں شپ بریکنگ ہے، پاکستان میں شپ بریکنگ کی صنعت گڈانی بلوچستان میں قائم ہے۔ یہاں شپ بریکنگ کے لیے 100 سے زائد یارڈز موجود ہیں جہاں بحری جہازوں اور بڑی بڑی کشتیوں کو سکریپ کی پلیٹوں کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور ری رولنگ ملز کو بھجوایا جاتا ہے۔
شپ بریکنگ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس طریقے سے حاصل ہونے والے سٹیل کا معیار اچھا نہیں ہوتا اس سے جو سریا اور دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں وہ اکثر غیر معیاری ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے بہتر معیار اور گریڈڈ مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے ویسے ویسے شپ بریکنگ کے شعبے کو زوال کا سامنا ہے۔
لیکن بنگلہ دیش او بھارت کے ساتھ پاکستان بھی ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں شپ بریکنگ کا کام ہوتا ہے، شپ بریکنگ ماحولیات کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور اکثر خطرناک مواد بھی کشتیوں کے قبرستان ( شپ گریو یارڈ ) پہنچ جاتا ہے، جو وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے اور اکثر آگے لگنے یا دھماکے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مزدوروں کو سرکاری مقرر کردہ تنخواہ سے چار گنا زیادہ یعنی لگ بھگ 70 ہزار روپے تک دی جاتی ہے۔ اگرچہ انہیں یہ معاوضہ جان خطرے میں ڈالنے کے عوض ملتا ہے مگر کسی بھی ترقی پذیر ملک کی طرح گڈانی میں مزدوروں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں بھی جاری رہتی ہیں۔
آغا سٹیل کا پس منظر
حسین آغا اپنے خاندان کی تیسری نسل کے رکن ہیں جو سٹیل کے کاروبار سے وابستہ ہے، تقسیم سے قبل اُن کے دادا نے لوہے کی زنجیروں اور کیل بنانے سے کام کا آغاز کیا تھا لیکن اس خاندان کے سٹیل کے کاروبار کے اصل بانی اقبال حسین آغا تھے جنہوں نے 1960ء میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عباس سٹیل کے نام سے کراچی کے علاقے کورنگی میں کاروبار شروع کیا۔ یہ ایک بھٹی تھی جس میں ری رولنگ پلانٹ نصب تھا، 1970ء میں آغا گروپ شپ بریکنگ کے کاروبار میں بھی داخل ہوا اور گڈانی کے مقام پر عباس شپ بریکنگ انڈسریز کی بنیاد رکھی، یہ پاکستان میں پہلا گروپ تھا جس کے پاس آئی ایس او سرٹیفائیڈ گرین یارڈ تھا۔
یہ بھی پڑھیے: آغا سٹیل کا ہورائزن سٹیل کیساتھ 10.5 ارب روپے کا معاہدہ
آغا گروپ نے خود کو سٹیل کے کاروبار تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ 1991ء میں اس نے العباس فیبرکس کے نام سے ٹیکسٹائل کے کاروبار میں بھی قسمت آزمائی کی، یہ بنائی، سلائی اور رنگ سازی کا کاروبار تھا جس کا زیادہ تر انحصار برآمدات پر تھا، 2003ء میں العباس گروپ نے ڈینم انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر ڈینم کی مصنوعات تیار کرنا شروع کر دیں جو سالانہ ایک کروڑ 20 لاکھ پیس میٹر کپڑا تیار کرتا ہے جس میں سے 40 لاکھ پیسز امریکا اور یورپ کو برآمد کر دئیے جاتے ہیں۔
لیکن آغا گروپ نے اپنے سٹیل کے کاروبار کو کبھی نہیں چھوڑا، یکم جنوری 2010ء کو آغا گروپ کے سٹیل مینوفیکچورنگ پلانٹ کا افتتاح ہوا جس کے ٹھیک دو سال بعد کمپنی نے اپنے کمرشل آپریشنز کا آغاز کر دیا۔ اس حوالے سے حسین آغا کا کہنا ہے کہ ‘اتنے کم وقت میں اتنی بڑی فیکٹری قائم کرنا ایک ایسی کامیابی ہے جس کی پورے خطے میں مثال کم ہی ملتی ہے۔‘
اقبال حسین کے دو بیٹے ہیں اور حسین آغا کا دوسرا نمبر ہے، ابھی محض 34 سال کے ہیں لیکن آغا سٹیل کے آغاز سے ہی اس کے سی ای او ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جس دن وہ امریکا کے شہر بوسٹن سے ایم بی اے اور انڈر گریجوئٹ بزنس ڈگری لے کروطن واپس پہنچے تو انہیں اگلے ہی دن دفتر جوائن کرنا پڑا۔
کمپنی کے initial public offering کی طرف جانے کے حوالے سے آغا حسین سمجھتے ہیں کہ کورونا وباء کے باوجود یہ وقت اس کام کے لیے بہترین ہے اور ایسا کچھ وجوہات کی بناء پر ہے ۔
اول، اپریل میں حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹر کے لیے مراعاتی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت انڈسٹری کو اب صرف سیلز ٹیکس دینا ہو گا اور منافع پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔
دوم، حکومت نے کمرشل بنکوں کو اپنے مجموعی قرضوں میں سے پانچ فیصد تعمیراتی شعبے کے لیے مختص کرنے کی ہدایت کی ہے، اس سے مذکورہ شعبے کے قرض داروں میں اضافہ ہو گا، اس سے قبل تعمیراتی شعبے کو صرف ایک فیصد قرضے ہی مل پاتے تھے۔ مختصر یہ کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں سٹیل کی مانگ بھی تیزے سے بڑھنے کی توقع ہے۔
سوم، یہ سٹاک مارکیٹ مارچ میں اپنی کم ترین سطح پر جانے کے بعد 54 فیصد تک ریکور کر گئی ہے اور کارکردگی کے حوالے سے ایشیا کی بہترین مارکیت بن گئی ہے۔ حصص کی قدر کم ہے اور ایسے میں سرمایہ کار اس کمپنی میں پیسہ لگائیں گے جو اچھی کارکردگی دکھائے گی۔
اینیشیل پبلک آفرنگ (آئی پی او) میں آغا سٹیل عارف حبیب لمیٹڈ کو ٹرانزیکشن کے لیے استعمال کرتے ہوئے 120 ملین شئیرز 30 روپے فی شئیر کے حساب سے بیچنا چاہتی ہے، زیادہ سے زیادہ سٹرائک پرائس 42 روپے رکھی جائے گی۔
اس آئی پی او میں 90 ملین شئیرز بُک بلڈنگ پراسس کے ذریعے فروخت کیے جائیں گے جبکہ بقیہ ملین شئیرز ریٹیل پیشکش کے ذریعے عام صارفین کو فروخت کیے جائیں گے اور کمپنی اس آئی پی او کے ذریعے تین ارب 60 کروڑ روپے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ ایک ارب 70 کروڑ روپے قرضوں اور اتنی ہی رقم سپلائرز کے کریڈٹ کے ذریعے حاصل کرے گی۔ کل ملا کر یہ سات ارب روپے بنتے ہیں جس میں سے دو ارب 70 کروڑ روپے پلانٹ اور مشینری کے لیے رکھے جائیں گے، ایک ارب روپے ورکنگ کیپیٹل، 44 کروڑ روپے زمین کے حصول، 51 کروڑ روپے سول ورک اور 47 کروڑ 60 لاکھ روپے ائیر سیپریشن یونٹ اور دیگر اخراجات کے لیے رکھے جائیں گے۔
کمپنی کی پیداواری صلاحیت
ابتداء میں کمپنی نے پورٹ قاسم پر 10 ایکڑ رقبے پر پیداوار عمل کا آغاز کیا، اپنی حریف کمپنیوں کے برعکس آغا سٹیل نے پاکستان کی پہلی 40 ٹن ای بی ٹی الیکٹرک آرک فرنس اور مکمل طور پر آٹومیٹک سٹریٹ لائن رولنگ مِل لگائی جس میں سالانہ ایک لاکھ 20 ہزار ٹن بارز، اڑھائی لاکھ ٹن بائلٹس بنائے جاتے تھے۔ مزید برآں کمپنی نے اسی فیکٹری میں ری رولنگ پراسیس کا انتظام بھی کیا جو پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا اور اس اقدام کی بدولت اسے وقت کے ضیاع جیسے معاملات کا سامنا نہیں کرنا پڑٓا۔
2017ء میں آغا سٹیل نے توسیع کے مقصد سے مزید 17 ایکڑ زمین حاصل کی جو ملز کے ساتھ ہی واقع تھی جس پر 2018ء تک توسیع کا عمل مکمل ہو گیا، کمپنی نے توسیع کے ساتھ خود کو جدت سے بھی لیس کیا جس کی بدولت اس کی میلٹگ کپیسٹی دو لاکھ 50 ہزار ٹن سے بڑھ کر چار لاکھ 50 ہزار ٹن سالانہ تک پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیے: سٹیل ملز کی نجکاری کے لیے ٹرانزیکشن ایڈوائزرز کی تعیناتی پر سوالات کھڑے ہو گئے
2019 میں کمپنی کی آمدن 10482 ملین روپے رہی جبکہ رواں برس 15710 ملین روپے آمدن ہوئی، بعد از ٹیکس کمپنی کا منافع 2019ء میں 768 ملین روپے جبکہ رواں برس 1236 ملین روپے ریکارڈ کیا گیا۔
آغا سٹیل دوسروں کی نسبت ایک مختلف سٹیل کمپنی ہے، اس کے ریونیو کا 80 فیصد کمپنی کی جانب سے خود کی گئی فروخت جبکہ 20 فیصد کمرشل یعنی تھرڈ پارٹی ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے فروخت سے آتا ہے۔ اس کی حریف کمپنیوں کو 70 فیصد آمدن کمرشل سیل سے ہوتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آغا سٹیل زیادہ کھپت والے شعبوں کو فروخت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے اور فی الحال ریٹیل سیل کی طرف اس کا میلان کم ہے۔ کمپنی بڑے منصوبوں کا حصہ بننا پسند کرتی ہے جیسا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، بحریہ ٹاؤن کراچی، کراچی سپر ہائی وے ایم نائن اور سندھ اینگرو مائننگ کمپنی وغیرہ۔
ٹیکنالوجی کا استعمال
آغا سٹیل انڈسٹری لیڈر کیسے بنی؟ اس حوالے سے کمپنی کے سی ای او حسین آغا کہتے ہیں کہ ایسا جدید ترین ہماری ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت ہوا، ’پوری انڈسٹری میں ہم واحد کمپنی ہیں جس کے پاس الیکٹرک فرنس ہے جہاں سو فیصد ریفائنڈ سٹیل بنائی جاتی ہے۔‘
الیکٹرک آرک فرنس (electric arc furnace) ہے کیا؟ یہ دراصل وہ مشینری ہے جہاں اعلیٰ درجے کا سٹیل بنایا جاتا ہے۔ روایتی انڈکشن فرنس (traditional induction furnace) کی نسبت اس کا توانائی کا خرچ کم ہے جس سے بجلی کی کل لاگت میں 25 فیصد تک بچت ہوتی ہے۔ انڈکشن فرنس کی نسبت اس میں گاہک کی مرضی کے خام مال سے سٹیل کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے جسے چلانے کے لیے مزدوروں کی کم تعداد چاہیے ہوتی ہے اور یہ ماحول دوست بھی ہے۔
لیکن آغا سٹیل کے سی ای او کمپنی میں Mi Da Rolling mill بھی لگانا چاہتے ہیں جس کے سامنے کمپنی کی موجودہ ٹیکنالوجی کچھ بھی نہیں اور ایسا کمپنی کے آئی پی او کے ذریعے 3 ارب 60 کروڑ روپے کے حصول کے بعد کیا جائے گا۔
اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسین آغا کا لہجہ ہی بدل جاتا ہے، وہ اپنی سٹیل مل کومزید جدت سے ہمکنار کرنے کے لیے بہت پُرجوش نظر آتے ہیں، اس کا خیال انہیں اٹلی کے Danieli Group کے ایک دورے کے بعد آیا، مذکورہ اطالوی گروپ کا قیام 1914ء میں عمل میں آیا، اور یہ اٹلی میں الیکٹرک آرک فرنس بنانے والی چند ایک بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے، آغا سٹیل نے اپنی میلٹنگ کیپیسٹی اڑھائی لاکھ ٹن سے بڑھا کر ساڑھے چار لاکھ ٹن کرنے کے لیے الیکٹرک آرک فرنس Danieli Group سے ہی حاصل کی تھی۔
اسی کمپنی نے ہی آغا سٹیل کو Mi.Da پلانٹ پر منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا، حسین آغا کہتے ہیں کہ یہ پلانٹ پاکستان کے لیے بہترین ہے اور جب سے انہوں نے اسے دیکھا ہے وہ ان کے دماغ پر سوار ہے۔
Mi.Da پلانٹ کا مطلب مائیکرو ڈائنامک مل ہے اوراس رولنگ پلانٹ میں ڈائریکٹ رولنگ بنڈلنگ سسٹم نصب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پلانٹ خام مال سے لے کر پراڈکٹ کی مکمل تیاری تک بنا تعطل پیداواری عمل جاری رکھ سکتا ہے، اس کے علاوہ یہ پلانٹ روایتی منی مِل کی نسبت 49 فیصد کم جگہ گھیرتا ہے۔
اس چیز کو آغا حسین یوں سمجھاتے ہیں کہ روایتی مل میں خام مال کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے جس سے سیمی فنشڈ پراڈکٹ، جسے بائلٹس کہا جاتا ہے، پیدا ہوتی ہے جسے دوبارہ گرم اور رول کیا جاتا ہے، اس عمل میں کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن Mi.Da پلانٹ پر یہ کام دو گھنٹوں میں ہو سکتا ہے۔
آغا حسین کے مطابق یہ ٹیکنالوجی گیم چینجر ہے، یہ ہر لحاظ سے جدید ٹیکنالوجی ہے جو سٹیل انڈسٹری میں چیزوں کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دے گی، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پہلے کبھی فیکس ہوا کرتا تھا اور آج اس کی جگہ ای میل نے لے لی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے آغا حسین کو Egyptian Steel کو دیکھ کر بھی ترغیب ملی جس نے یہ پلانٹ 2014ء میں حاصل کر لیا تھا۔
’یہ ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پلانٹ ہو گا اور کمپنی اس کی مدد سے رواں سال اپنی ری رولنگ کی صلاحیت کو اڑھائی لاکھ ٹن سے بڑھا کر ساڑھے چھ لاکھ ٹن تک لے جانا چاہتی ہے۔‘
کمپنی نے یہ پلانٹ خرید چکی ہے اور اسے لگایا جا رہا جا رہا ہے، پیداواری عمل اگلے برس جون میں شروع ہو گا۔
مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سٹیل کی کھپت بہت کم ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں سٹیل کی مانگ ابھی شروع ہی ہوئی ہے، مگر ماہرین کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد اس میں زبردست تیزی آئے گی۔
اس حوالے سے اپنی رپورٹ بعنوان ‘From Meltdown to forging opportunities’ میں آدم سیکیورٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ فہد حسین خان کہتے ہیں کہ ’ریبارز کا استعمال بنیادی طور پر تعمیراتی شعبے میں ہوتا ہے اور اس کی کھپت کا سیمنٹ کی کھپت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔‘
آدم سکیورٹیز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تعمیراتی شعبے میں سیمنٹ کے ساتھ سریے وغیرہ کے استعمال کا تناسب ہر منصوبے کے لیے الگ ہوتا ہے، اونچی عمارتوں میں زیادہ سریا استعمال ہوتا ہے اور کم اونچائی والی عمارتوں کم، سیمنٹ کی طلب میں اضافے اور جی ڈی پی گروتھ کا موازنہ کیا جائے تو 1991ء سے 2015ء تک یہ تناسب 0.56 بنتا ہے۔
معیشت کو کورونا کے اثرات سے نکالنے کے لیے حکومت کی جانب سے تعمیراتی صنعت کے لیے پیکج کے اعلان کے بعد ماہرین پُرامید ہیں کہ سی پیک منصوبوں کے علاوہ بھی سٹیل کی طلب میں اضافہ ہو گا۔
حسین آغا بھی مستقبل کے حوالے سے پراُمید ہیں، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں بہت سے کمپنیاں دوسری کمپنیوں میں ضم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جبکہ کئی کمپنیاں دوسری کمپنیوں کو خرید بھی سکتی ہیں۔
اگردیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں سٹیل مینوفیکچررز کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے، یہاں کبھی سٹیل بنانے کے دو سو کارخانے بھی نہیں رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ سٹیل کی پیداواری صنعت کو اچھے خاصے مالیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کمپنی کو عالمی معیار کا بننے کے لیے اس کی پیداوار سالانہ چار لاکھ ٹن تک ہونا ضرور ی ہے اور پاکستان میں ایسی سٹیل کمپنیوں کی تعداد صرف تین ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سٹیل انڈسٹری ابھی نوزائیدہ ہے، مجموعی عالمی پیداوار میں ہمارا حصہ 0.2 فیصد ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
لیکن حسین آغا مایوس نہیں ہیں اور وہ پاکستان کی آبادی کے حجم کے باعث کافی پُرامید ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک بڑی آبادی کا حامل ملک ہیں، جس کے 70 فیصد افراد 30 سال سے کم عمر جبکہ آبادی کا نصف پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے لہٰذا ہمیں افرادی قوت کے حصول کیلئے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘
ملک کے دوسرے درجے کے شہروں کی ترقی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب یہ شہر ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے لگیں گے تب ہی پاکستان کی اصل ترقی سامنے آئے گی۔ حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ ایسے شہر ہیں جن کا آئندہ سالوں میں سٹیل کی قومی پیداوار میں اضافے میں اہم کردار ہو گا۔
انہوں نے پیشگوئی کی کہ آئندہ پانچ سالوں میں سٹیل کی قومی پیداوار میں 20 لاکھ ٹن کا اضافہ ہو گا جو موجودہ پیداوار سے بہت زیادہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور کمپنی کی اینیشیل پبلک آفرنگ بہترین ہوتی ہے تو آنے والے دنوں آغا سٹیل کی برانڈنگ کی موجودگی ہر جگہ نظر آئے گی، فی الوقت یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آغا سٹیل پاکستان میں فولاد سازی کی صنعت میں تیزی سے اُبھرتا ہوا گروپ ہے۔