پی ایس ایل میں مالی بے قاعدگیاں، پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی

علم نہیں تھا ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ معاملات مجھ سے پہلے کے ہیں، احسان مانی، یک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا، ۔ پی اے سی ارکان کا اظہار برہمی

735

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی  نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں مبینہ بے ضابطگیوں کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔

پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نور عالم خان، خواجہ محمد آصف، سردار ایاز صادق سید نوید قمر حنا ربانی کھر ،سیمی ایزدی، شاہدہ اختر علی اور مننزہ حسن سمیت دیگر ارکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایسے آڈٹ اعتراضات جو نہیں نمٹائے جا سکتے، انہیں ایوان میں پیش کر دیا جائے کیونکہ ان سے متعلقہ لوگ یا تو وفات پا چکے ہیں یا نہیں مل رہے۔

آڈیٹر جنرل نے ان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص رقم کی حد مقرر کرکے ایسے کیس ڈی اے سی کی سطح پر نمٹائے جائیں۔ پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسران اپنی برادری کا ساتھ دیتے ہیں۔

اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے پی ایس ایل سیزن وَن اور سیزن ٹو سے متعلقہ 2018-19ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ پہلے تو ہمیں دستاویزات نہیں مل رہی تھیں، اب ہم نے آڈٹ شروع کر دیا ہے، اگلی رپورٹ بھی جلد پیش کر دیں گے۔ سیکرٹری آئی پی سی غفران میمن نے کہا کہ ہمیں پی سی بی کی طرف سے ورکنگ پیپر نہیں ملا اس لئے آڈٹ رپورٹ تیار نہیں ہو سکی۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ معاملات مجھ سے پہلے کے ہیں۔ اس پر پی اے سی کے ارکان نے ان کی اس بات پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ احسان مانی پی سی بی کے سربراہ ہیں، انہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا، سیکرٹری آئی پی سی پی سی بی کو بلا کر بریف کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ معاملات کیسے چلتے ہیں۔

احسان مانی نے کہا کہ انہیں سپیشل آڈٹ کے حوالے سے ایجنڈا فراہم نہیں کیا گیا، ہمیں جو نوٹس ملا اس میں پی ایس ایل کے آڈٹ اعتراضات کا ذکر تھا، پی سی بی کی سپیشل آڈٹ رپورٹ کا ذکر نہیں تھا۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ پی ایس ایل کے دونوں ٹورنامنٹس کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات کی مالیت دو ارب 77 کروڑ ہے، پی ایس ایل کی تین فرنچائزز کم قیمت پر نیلام کی گئیں جس سے 11 لاکھ ڈالر کا سالانہ نقصان ہوا۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا پی سی بی پر پیپرا قواعد لاگو نہیں ہوتے تاہم اس وقت حالات ایسے تھے کہ پی ایس ایل کرانا ضروری تھا۔

اس پر سید نوید قمر نے کہا کہ پی سی بی خود مختار ہو گا مگر یہ ادارہ حکومت کی ملکیت ہے۔ سیکٹری آئی پی سی نے کہا کہ پیپرا قواعد میں اب ترمیم ہوئی ہے، پہلے والے قواعد کے مطابق پی سی بی پر لاگو نہیں تھے، ترمیم کے بعد لاگو ہوئے ہیں۔

شیری رحمان نے کہا کہ اگر خودمختار ادارے کے قواعد سرکاری قواعد سے مطابقت نہیں رکھتے تو قانون کے تحت اس پر وفاقی سرکاری قواعد بالا دست ہوتے ہیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی تیاری کے ساتھ نہیں آئے، کوئی بھی خودمختار سرکاری ادارہ ہو اس کا آڈیٹر جنرل آفس آڈٹ کر سکتا ہے۔

پی اے سی نے سیکٹری آئی پی سی کو پی ایس ایل میں مالی بے قاعدگیوں کی ایک ماہ میں مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here