واشنگٹن: امریکی سائنسدانوں نے کائنات میں مادے اور توانائی کی مقدار کے درمیان تناسب معلوم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
سائنسی جریدے ’آسٹروفیزیکل جرنل‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کائنات میں مادے کا تناسب 31.5 فیصد ہے جس میں غلطی کا امکان 1.3 فیصد تک ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کائنات کا باقی 68.5 فیصد ڈارک انرجی پر مشتمل ہے، سائنسدانوں کے مطابق یہ وہ پراسرار توانائی ہے جو کائنات کے مسلسل پھیلاﺅ کی ذمہ دار ہے، اسے 1990ء کے عشرے کے اواخر میں زمین سے انتہائی دور موجود سپرنووا کے مشاہدے کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا۔
رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم میں شامل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدان محمد عبداللہ کے مطابق نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کائنات کا وہ حصہ جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں میں مادے کی مقدار ہمارے سورج میں موجود مادے کی کمیت سے 66 ارب کھرب گنا زیادہ ہے۔
اس مادے کا تقریباً 80 فیصد حصہ تاریک مادہ کہلاتا ہے جس کی ساخت سے متعلق ابھی تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تاہم سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ یہ ڈارک میٹر ایسے سب اٹامک پارٹیکلز پر مبنی ہے جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سائنسدان گلیان ولسن کے مطابق کائنات میں موجود مادے کی مقدار کا تخمینہ لگانے کے لئے 90 سال پرانی تکنیک استعمال کی گئی ہے جس میں کہکشاﺅں کے جھرمٹ میں موجود ایک کہکشاں کی گردش کا مشاہدہ کر کے اس کی کشش ثقل معلوم کی جاتی ہے اور پھر اس کشش ثقل کی مدد سے اس کہکشاں کی کمیت معلوم کی جا سکتی ہے۔
گلیان ولسن کے مطابق سائنسدانوں نے گال ویٹ نامی ایک آلے اور کائنات کے سہ العبادی نقشے کی مدد سے کہکشاﺅں کے 1800 کلسٹرز کی کمیت معلوم کی اور اس کا ریکارڈ مرتب کیا۔
گلیان ولسن نے مزید بتایا کہ کائنات میں موجود تاریک مادے اور تاریک توانائی کا درست اندازہ لگا کر ہم اس بگ فریز یا عظیم انجماد کے مرحلے سے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں جب کہکشائیں ایک دوسرے سے بہت دور چلی جائیں اور ستاروں میں موجود ایندھن ختم ہو جائے گا۔