اسلام آباد: وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ گیس کے شعبہ کا گردشی قرضہ 250 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، سردیوں میں ایس ایس جی سی کے سسٹم میں گیس کی قلت 400 ایم ایم سی ایف ڈی اور ایس این جی پی ایل کے سسٹم میں 300 ایم ایم سی ایف ڈی رہنے کی توقع ہے، ملک میں تیل و گیس کے ذخائر 7.5 فیصد کے حساب سے کم ہو رہے ہیں۔
جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی پٹرولیم عمر ایوب خان نے کہا کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے اقدامات نہیں کئے، پاکستان کے تیل و گیس کے ذخائر 7.5 فیصد کے حساب سے کم ہوتے رہے، سندھ خصوصاً کراچی میں گیس کی قلت کا سامنا ہے، گیس پائپ لائن کیلئے 17 کلومیٹر کے راستے کی سندھ حکومت نے ابھی تک اجازت نہیں دی، گیس کے شعبہ میں گردشی قرضہ 250 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے باہر سے درآمد کرنا پڑے گی، سردیوں میں گیس کی قلت کے حوالہ سے پیشگی اقدامات کر رہے ہیں۔ حکومت سندھ سے پوچھا جائے کہ وہ راہداری کیوں نہیں دے رہی، اگر سندھ حکومت 17 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کیلئے راستہ فراہم کر دے تو ہم فوری طور پر یہ پائپ لائن بچھا دیں گے، اس سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سسٹم میں آ جائے گی۔
عمر ایوب نے کہا کہ سردیوں کیلئے ہمیں گیس کی منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور اس کیلئے سی این جی اور دیگر کئی شعبوں کی گیس کو بند کرنا پڑ سکتا ہے۔ سردیوں میں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے، ویٹیج ایوریج پر گیس کی قیمت کا تعین نہیں کیا جاتا تو پھر یہ مسئلہ رہے گا اور گیس کی قلت ہو گی، ہم نے اس معاملہ پر ایک گیس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا اور اس کے حل کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ سندھ اور خصوصاً کراچی میں گیس کا پریشر کم ہے، پچھلے سال ایس ایس جی سی کے سسٹم میں 1120 سے 1150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس آ رہی تھی جو اب 960 سے 970 ایم ایم سی ایف ڈی پر آ گئی ہے، ایک سال میں ایس ایس جی سی کے سسٹم میں 140 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداوار کم ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال جون سے کے الیکٹرک کو 100 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی گیس دی جا رہی ہے، یہ اگر فراہم نہ کرتے تو صورتحال مزید خراب ہو جاتی، کراچی میں دسمبر میں گیس کی قلت 250 سے 450 ایم ایم سی ایف ڈی تک ہو جائے گی تاہم سردیوں میں سوئی سدرن کے نظام میں بھی 300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی متوقع ہے پھر ہم ایس این جی پی ایل کے سسٹم سے ایس ایس جی سی کو گیس بھی نہیں دے سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پورٹ قاسم سے ایل این جی کی فراہمی کیلئے 1700 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانا چاہتے ہیں اس کیلئے سندھ حکومت کا تعاون چاہئے، اضافی ایل این جی کراچی میں استعمال ہو گی ورنہ گیس کی قلت کا صنعتی شعبہ پر منفی اثر پڑے گا، صنعت کاروں کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے ان سے بھی کہا ہے کہ وہ سندھ حکومت سے رابطہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو سال میں گیس کے 26 نئے چھوٹے ذخائر دریافت کئے گئے، حکومت نے 245 ایم ایم سی ایف ڈی گیس نظام میں شامل کی تاہم 400 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی بھی ہوئی ہے، نئے بلاکس پر کام شروع کرنے میں 4 سے 5 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، گذشتہ حکومت نے پانچ سال میں کسی نئے بلاک کیلئے لائسنس جاری نہیں کیا، موجودہ حکومت نے 10 نئے بلاکس کیلئے لائسنس جاری کئے ہیں، 20 بلاکس کا اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں اشتہار دے دیا جائے گا، دسمبر میں 10 آف شور بلاکس بھی نیلامی کیلئے پیش کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کیلئے 4 کمپنیوں نے درخواستیں دائر کی ہیں، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل نے جی آئی ڈی سی کی پہلی قسط بلوں میں بھجوا دی ہے اور کسی کو رعایت نہیں دی گئی تاہم کچھ کمپنیوں نے کیلکولیشن اور کولیکشن کے معاملہ پر حکم امتناعی حاصل کیا ہے، وہ جمع نہیں کرا رہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں گیس کمپنیوں کے خلاف ایک سال میں 98 ہزار شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ صنعتوں اور دیگر شعبوں کا گیس پریشر کم کرکے بھی گھریلو صارفین کو گیس فراہم کرنا پڑی تو کریں گے کیونکہ گھریلو صارفین ہماری اولین ترجیح ہیں۔