ہانگ کانگ: منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزمات اور چین کی طرف سے ناقابل اعتبار فہرست میں شامل کئے جانے کے خدشات کے نتیجہ میں برطانیہ کے سب سے بڑے ایچ ایس بی سی بینک کے حصص کی فروخت گذشتہ 25 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اور برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹس کے مطابق مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے فن سین (FinCEN Files) سے لیک ہونے والی دستاویزات سے علم ہوا ہے کہ ایچ ایس بی سی نے دھوکے بازوں کی دھوکہ دہی کا علم ہونے کے باوجود انہیں کروڑوں ڈالر دنیا بھر میں منتقل کرنے کی اجازت دی۔
ایچ ایس بی سی نے اپنے امریکی کاروبار کے ذریعے یہ رقم 2013ء اور 2014ء میں ہانگ کانگ میں ایچ ایس بی سی کے اکائونٹس میں منتقل کی۔
ممکنہ چینی اقدام کے نتیجہ میں بنک کے اکاﺅنٹ ہولڈرز کو چین اور ہانگ کانگ میں اپنے لین دین اور دیگر بزنس سرگرمیوں میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے امریکی سرکاری دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ بینک نے گزشتہ دو عشروں کے دوران طاقتور اور خطرناک پارٹیوں سے منافع کمایا۔
یہ بھی پڑھیے: فین سین فائلز: چھ پاکستانی بینک بھی مبینہ منی لانڈرنگ کے مرتکب
امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی اور کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے اثرات کے نتیجہ میں چھ ماہ کے دوران ایچ ایس بی سی بینک کے منافع میں 69 فیصد اور اس کے حصص کی قیمت آدھی ہو چکی ہے۔
ایچ ایس بی سی کی طرف سے ہانگ کانگ بارے چین کے نیشنل سکیورٹی لاء کی حمایت بھی کی گئی جس کے نتیجہ میں اسے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ایچ ایس بی سی کا چین اور مغربی دنیا کے درمیان مالیاتی لین دین میں اہم کردار ہے۔
ایچ ایس بی سی بارے لیک ہونے والی فن سین فائلز کہلانے والی یہ دستاویزات درحقیقت مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹس (ایس اے آر) پر مبنی ہیں جو بینکوں کی اندرونی دستاویزات ہوتی ہیں۔ ان دستاویزات میں پونزی سکیم کے ذریعے اس آٹھ کروڑ ڈالر کے فراڈ میں اس بینک کا کردار سامنے آیا ہے۔
ادھر ایچ ایس بی سی کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ ایسی سرگرمیوں کی رپورٹ کرنے میں اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی ہے، ان فائلوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ فراڈ بینک پر امریکہ میں منی لانڈرنگ کی وجہ سے ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔
دھوکے کے شکار ہونے والے سرمایہ کاروں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ بینک کو فراڈیوں کے اکائونٹس بند کرنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے چاہیے تھے۔
لیک دستاویزات میں مزید کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک بینک نے ایک بدنامِ زمانہ مجرم کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم منتقل کرنے میں مدد کی۔
ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک کو ایک مقامی کمپنی کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود اس کی مدد کر رہی ہے لیکن انھوں نے ان معلومات کی بنا پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
لیک ہونے والی دستاویزات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سنہ 2011 اور 2012 کے دوران دبئی میں قائم گونز جنرل ٹرینڈنگ نامی کمپنی نے اماراتی مالیاتی نظام کے ذریعے 142 ملین (14 کروڑ 20 لاکھ) ڈالر کی مشکوک منتقلی کی۔ ان سرگرمیوں کی شکایت ایک برطانوی بینک نے کی تھی لیکن اس کے باوجود یہ کمپنی مقامی مالیاتی اداروں کو استعمال کرتی رہی۔
فن سین فائلز 2657 لیک شدہ دستاویزات ہیں جن میں 2100 دستاویزات مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹس (ایس اے آر) ہیں۔ بینک یہ رپورٹس حکام کو اس وقت بھیجتے ہیں جب انھیں یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے صارف کچھ غلط کر رہے ہیں۔
قانون کے تحت بینکوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کے کلائنٹس کون ہیں، صرف ایس اے آر فائل کرتے رہنا اور کلائنٹس سے جرائم کا پیسہ لیتے رہنا کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید باندھ لی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے خود ہی نمٹ لیں گے۔ اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انھیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔
لیک دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے ذریعے کالا دھن سفید کیا گیا اور کیسے مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پیسہ چھپایا۔
یہ ایس اے آر دستاویزات میڈیا ادارے بزفیڈ کی ویب سائٹ کو لیک کی گئیں اور ان کا تبادلہ تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے ساتھ کیا گیا۔
لیک ہونے والی یہ رپورٹس سنہ 2000ء سے 2017ء کے درمیان امریکہ کے فنانشل کرائمز انویسٹیگیشن نیٹ ورک یا فن سین کو جمع کروائی گئی تھیں اور ان میں تقریباً 20 کھرب ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے۔