اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ہیڈکوارٹرز میں ٹیکس سال 2018ء کے آڈٹ کیسز کے انتخاب کے لئے جمعہ کو قرعہ اندازی میں انکم ٹیکس کے 10 ہزار 441 سیلز ٹیکس کے 2 ہزار 65 اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے27 کیسوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا جبکہ ٹیکس ڈائریکٹری کا اجراء بھی کر دیا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں جمعہ کو ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی، وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ مہمان خصوصی تھے، انہوں نے بٹن دبا کر قرعہ اندازی کی، قرعہ اندازی میں انکم ٹیکس کے 10 ہزار 441 کیسز (0.76 فیصد) کا انتخاب کیا گیا۔
سیلز ٹیکس 1.67 فیصد یا 2 ہزار 65 کیسوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا، سیلز ٹیکس کے کل ایک لاکھ 23 ہزار 486 کیسوں کے لئے قرعہ اندازی ہوئی۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی کل 479 کیسز میں سے 27 کیسز کا انتخاب کیا گیا جو کل کیسوں کے 27.64 فیصد بنتے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی نے تقریب کے آغاز میں بتایا کہ ایف بی آر کے تحت آج ٹیکس ڈائریکٹری اور جدید سائنسی و تکنیکی بنیادوں پر آڈٹ کیسز کا انتخاب عمل میں لایا جا رہا ہے۔
’ہماری بنیادی توجہ ٹیکس گزاروں کو سہولیات کی فراہمی ہے تاکہ کاروبار کو فروغ دیا جائے اور اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ٹیکس ڈائریکٹری 2018ء تیار ہے اس کو سادہ اور آسان بنایا گیا ہے۔ ڈائریکٹری میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے ادا شدہ ٹیکس کی تفصیلات درج ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس سال 2018ء کے تمام ٹیکسز کے لئے کیسز کے انتخاب کا معیار پیرا میٹرک طریقہ کار پر مبنی ہے، سائنسی بنیادوں پر کیسز کے انتخاب کے لئے رسک پر مبنی آڈٹ مینجمنٹ سسٹم نامی سافٹ ویئر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس سافٹ ویئر کی بدولت ایف بی آر کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ عدم تعمیل کرنے والے ٹیکس گزاروں کے کیسز پر توجہ دے سکے اور تعمیل کرنے والے ٹیکس گزاروں کو سہولت دے تاکہ ان کا آڈٹ نظام پر اعتماد کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ قرعہ اندازی میں ایسے تمام کیسز خارج کر دیئے جائیں گے جن میں تنخواہ اور پنشن پر انکم ٹیکس آمدنی کے 50 فیصد سے تجاوز کر جائے، سوائے ان کیسز پر جہاں آمدنی کاروبار کے ذریعے آئے۔
’کمپنیوں کے ڈائریکٹرز اس اخراج کے لئے کوالیفائی نہیں کرتے۔ وہ تمام کیسز جن میں تمام آمدنی حتمی ٹیکس رجیم کے دائرہ کار میں آئے اور وہ تمام کیسز جنہوں نے 2018ء اور 2019ء ایمنسٹی سکیم کے تحت اثاثے ظاہر کر دیئے ہیں وہ بھی آڈٹ سے خارج کر دیئے ہیں۔‘