کے پی حکومت طورخم کسٹم سٹیشن کی سہولیات کے لیے 8 ملین روپے جاری کرے گی

632

پشاور: خیبرپختونخوا (کے پی) کے وزیر خزانہ نے طورخم کسٹمز سٹیشن پر مزید سہولیات دینے کے لیے 8 ملین روپے جاری کرنے کی سمری وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کو بھیج دی ہے۔

کے پی حکومت نے طورخم کسٹم سٹیشن کی تجارتی سرگرمیاں بڑھانے اور کسٹمز سٹیشن کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محکمہ خزانہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کے مطابق سرحد پر درآمدات اور برآمدات سے بھاری آمدن ہوئی ہے، اسی لیے کاروبار کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے لیے کسٹمز سٹیشن کے معیار کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

تاہم، سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایس سی سی آئی) کے سینئر نائب صدر شاہد حسین نے سہولیات میں بہتری سے متعلق کے پی حکومت کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پرافٹ اردو کو بتایا کہ جب تک دونوں اطراف سے برآمداتی ترسیل کو سہولت دی جارہی ہے تو ایسے اقدامات سمجھ سے بالاتر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

’طورخم بارڈر پر پھنسے تجارتی ٹرک 10دن میں کلئیر کر دئیے جائیں گے‘

’پاک افغان تجارت پانچ ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی‘

شاہد حسین نے کہا کہ “پاکستانی حکام نے لنڈی کوتل اور پشاور کے درمیانی علاقہ جات میں تجارتی گاڑیوں کی پارکنگ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں کیے گئے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو پاک-افغان تجارت اور معقول کسٹمز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے، گزشتہ سال پاکستان نے افغانستان سے درآمد کیے جانے والے انگوروں پر کسٹمز ڈیوٹی میں اضافہ کیا تھا، جواب میں کابل نے پاکستانی آموں پر کسٹمز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کر دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی تاجروں اور برآمدکنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حسین نے طورخم بارڈر پر درآمداتی اور برآمداتی گاڑیوں کی کلیئرنس کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی درخواست کی تھی، دونوں جانب سے گاڑیوں کو جلد کلیئر کروانے سے پاکستان اور افغانستان کی تجارت زیادہ ہو گی جس سے دونوں ممالک کی آمدن میں اضافہ ہوگا۔

گزشتہ سال، وزیراعظم عمران خان نے طورخم بارڈر پاک- افغان تجارت کو بڑھانے کے لیے 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا افتتاح کیا تھا، جس سے مقامی شہریوں کے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا تھا۔ حکومتی حکام کو یقین ہے کہ اگر طورخم بارڈر پر تجارتی سہولیات بہتر طور پر فراہم کی جائیں تو وسطی ایشیائی ممالک بھی اس اہم روٹ کو استعمال کریں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here