کراچی: ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) نے کراچی میں بارشوں سے ہونے والی پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال کے دوران انتظامات نہ کرنے اور بالخصوص کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی)، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی ناقص کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کی ترقی پر خرچ ہونے والے فنڈز کی عدلیہ کی نگرانی میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
فیڈریشن کے صدر اسماعیل ستار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں مثلاً کے الیکٹرک اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کے ساتھ ہم آہنگی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے جس نے براہ راست کراچی کے شہریوں کی جان سے بچانے کے لیے بروقت ردعمل کو متاثر کیا۔
ای ایف پی نے پاکستان کے مینوفیکچررز کی ایپکس باڈی ہونے کی حیثیت سے کے الیکٹرک کے بد انتظامی معاملات اور ناکارہ ٹرانسمیشن سسٹم پر افسوس کا اظہار کیا جسے بدقسمتی سے مون سون بارشوں کے دوران بجلی سے ہونے والے کسی بھی ممکنہ واقعات کو روکنے کے لیے بند کرنے کی ضرورت ہے۔
اس پر اسماعیل ستار نے واٹر پروف الیکٹرک سپلائی سٹرکچر کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ گنجان آباد شہر کراچی میں پاور مارکیٹس اور علاقائی ٹرانسمیشن آپریٹرز (آر ٹی اوز) کی تشکیل کے مجوزہ منصوبوں کو تیز کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگست 2020ء میں 442 ملی میٹر کی بارش نے 1967ء کے 429.3 ملی میٹر کا ریکارڈ توڑ دیا لیکن اس کے باوجود کوئی بھی برساتی نالوں پر قائم غیر قانونی تعمیرات اور شجرکاری مقامات کو ختم کرنے اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کا خواہاں نظر نہیں آیا۔
انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، کے ڈی اے، ڈی ایچ اے اور سی بی سی کو تجاوزات کی اجازت دینے کا مکمل طور پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کے بنائے ہوئے انڈر پاس بارش کے پانی سے بھر گئے ہیں۔
اسماعیل ستار نے سوال اٹھایا کہ فرنیچر، کپڑا، الیکٹرانکس، سیمنٹ جیسے جی ڈی پی میں کئی اہم شراکت دار فیکٹریوں کے بیسمنٹ تباہ ہو گئے ہیں۔ اس وقت میئر کراچی کہاں تھے؟ کیا یہاں کوئی انتظامیہ نہیں ہے؟ کراچی کی ترقی کے لیے مختص بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ برساتی نالوں پر غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت کس نے دی؟ ای ایف پی بورڈ آف ایڈوائزر کی جانب سے متعدد سوالات اٹھائے گئے تھے۔
صدر ای ایف پی نے اگست کے دوران 200 ارب روپے سے زائد معاشی نقصانات پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقصانات ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان کورونا وبا سے پیدا ہونے والے سنگین بحرانوں سے نکل رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے پاکستان بھر کی روزی روٹی وابستہ ہے اور اگر خدا نے چاہا تو اسے ٹوکیو جاپان میں تبدیل کیا جانا کوئی بڑی بات نہیں جس میں ہر ضلع (صدر، گلشن وغیرہ) کو مکمل انتظامی اختیار حاصل ہو۔
انہوں نے ناکافی نالوں، برساتی نالوں اور طویل عرصے سے بجلی و گیس کی بندش کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جو کچھ کیسز میں 100 گھنٹوں سے زیادہ جاری رہا۔