برآمدات کے فروغ کے لیے فنانس سکیمیں سٹیٹ بنک پر مالی بوجھ کا باعث ہیں : عالمی بنک کی رپورٹ

ایکسپورٹ فنانس سکیم اور لانگ ٹرم فنانس فیسیلٹی سے برآمدات میں اضافہ تو ہوا ہے مگر ان سے مرکزی بنک کو مالی طور پر شدید دھچکا بھی پہنچا ہے، ان سکیموں کو تمام شعبہ جات کو فراہم کرنے کے علاوہ کمرشل بنکوں کے لیے ان کے ریٹ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے : ورلڈ بنک

694

اسلام آباد : ورلڈ بنک کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ اگرچہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی فنانسنگ سکیموں کی بدولت ٹیکس ریونیو اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے مگر ان سکیموں سے مرکزی بنک کو خاصا مالی نقصان بھی ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکسپورٹ فنانس سکیم اور لانگ ٹرم فنانس فیسیلٹی خصوصی طور پر ایسی سکیمیں ہیں کہ جن کی بدولت ملک کے سب سے  بڑے بنک کو شدید مالی دھچکا لگا ہے۔

عالمی بنک کی رپورٹ میں برآمدات کو فروغ دینے لیے شروع کی جانے والی دونوں سکیموں کے ملک کی ایکسپورٹس پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

امریکی معیشت میں 32.9 فیصد کی ریکارڈ کساد بازاری

ان سکیموں کے مالی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے عالمی بنک نے تجویز کیا ہے کہ مرکزی بنک کو کمرشل بنکوں کو ان سکمیوں کی مد میں فنڈز مالی طور پر زیادہ فائدہ مند ریٹ پر فراہم کرنے چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان برآمد کنندگان  کو دی جانے والی رعایتوں کے ثمرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک دلچسپ تجربہ گاہ ہے اور وہ اس طرح کے اگرچہ گزشتہ تیس برسوں میں دنیا کےمقابلے میں اسکی برآمدات تیزی سےبڑھیں ہیں مگر 2008 کے معاشی بحران کے بعد یہ اس میدان میں جنوبی ایشیا میں اپنے مد مقابل ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔

عالمی بنک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کم شرح سود والی سکیمیں کافی مہنگی پڑتی ہیں مزید برآں ان سکیموں کا زیادہ فائدہ تب ہی مل سکتا ہے جب یہ تمام شعبہ جات کے لیے ہو۔

مزید برآں ان سکیموں  کے تحت زیادہ تر فنڈز نئی کمپنیوں یا ان کمپنیوں کو ملنے چاہیے جو نئے شعبہ جات میں داخل ہورہی ہوں کیونکہ پرانے شعبہ جات کے بجائے نئے شعبوں پر توجہ دینا برآمدات کے حوالے سے فائدہ مند چیز ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان میں ناروے کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی شرح میں 247.06 فیصد اضافہ

ایکسپورٹ فنانس سکیم اور لانگ ٹرم فنانس فیسیلٹی پاکستان میں 1973 سے فراہم کی جارہی ہیں جن کے تحت 2015  سے  2017 تک سالانہ  3.8ارب روپے کے قرضے دیے گئے۔

عالمی بنک کی رپورٹ میں دونوں سکمیوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا گیا ہے کہ انکی بدولت ملکی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایکسپورٹ فنانس سکیم سے فائدہ اُٹھانے والی کمپنیوں کی برآمدات میں سات فیصد جبکہ لانگ ٹرم فنانس فیسیلٹی سے مستفید ہونے والی کمپنیوں کی برآمدات 8.7 سے 11.2 فیصد بڑھیں۔

تاہم اپنے جائزے میں عالمی بنک اس بات کے ثبوت حاصل نہیں کرسکا  کہ آیا ان سکمیوں کی بدولت برآمد ہونے والی اشیا کی تعداد اور بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی میں بھی اضافہ ہوا یا نہیں؟

برآمدات میں اضافے کے لیے فنڈز کی فراہمی بہت ضروری ہے کیونکہ ایک تو اشیا کی پیداوار اور فراہمی میں طویل وقفہ ہونے کی وجہ سے انکی  بین الاقوامی تجارت کرنے والی کمپنیوں کوسرمایہ چاہیے ہوتا ہے تو دوسری طرف عالمی مارکیٹ کےمعیار بھی مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here