اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں دوسری ترمیم کی اکثرتی ووٹ سے منظوری دے دی۔
رکن اسمبلی فیض اللہ کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ہونے والے اجلاس میں 9 ارکان نے منی لانڈرنگ ایکٹ میں دوسری ترمیم کے حق میں جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چھ ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
اپوزیشن نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے ترمیمی بل کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی کہ اس میں ان کی دی ہوئی کوئی تجویز شامل نہیں کی گئی، اس موقع پر کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ بل پر اعتراضات کو کمیٹی کی کارروائی کا حصہ بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: شوگر انڈسٹری میں اصلاحات، کمیٹی قائم کرنے کی منظوری
پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اینٹی منی لانڈرنگ بل میں نیب کی شمولیت کی مخالفت کی تھی مگر نیب اب بھی بل کا حصہ ہے۔
اس پر فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے افسران کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو بہت سے کیسز میں تحقیقاتی اداروں کی مدد کر رہا ہے لہٰذا نیب کو اس بل سے نکالنا بہت مشکل ہے۔
مسلم لیگ ن کی سابق وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ بل کی منظوری ملک میں کاروباری طبقے کو ہراساں کرنے کا سبب بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے قانون سازی کرنے والے دیگر ممالک کے قوانین سے موازنہ کیے بغیر جلد بازی میں قانون پاس کروا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ حکومت اپوزیشن پارٹیز کو ہراساں کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے اور اینٹی منی لانڈرنگ بل بھی اسی چیز کا حصہ ہے۔
مسلم لیگ ن کے قیصر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت نے بل میں جو چیزیں شامل کی ہیں ایف اے ٹی ایف نے تو ان کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیے: فیٹف کے ایما پر قانون سازی کاروبار کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے
کمیٹی سے منظوری ملنے کے بعد حکومت اب اینٹی منی لانڈرنگ بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروائے گی۔
اس بل کی منظوری کے بعد منی لانڈرنگ پر سزا 50 لاکھ روپے سے بڑھ کر اڑھائی کروڑ روپے ہو جائے گی جبکہ قانون سے وابستہ افراد کے اس جرم کے مرتکب ہونے پر 10 کروڑ روپے جرمانہ اور 10 سال قید ہو گی۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر مالیاتی نظام کو ادارے کے معیار کے مطابق بنانے، دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام اور انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا شدید دباؤ ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے اور گرے لسٹ سے باہر آنے کے لیے پاکستان کے لیے ان شرائط پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔