ہانگ کانگ: ایشین مارکیٹ میں سونے کے نرخ 1981.27 ڈالر فی اونس کی تاریخی سطح پر پر پہنچ گئے جس کی وجہ ڈالر کی شرح تبادلہ میں کمی، دنیا میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے باعث اقتصادی شرح نمو بارے خدشات اور چین امریکا کشیدگی ہے۔
ہانگ کانگ میں سونے کے نرخ منگل کے روز سونے کے نرخ مزید اضافے کے ساتھ 1981.27 ڈالر فی اونس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔
ماہرین کے مطابق امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی، ڈالر کی گراوٹ، اور کورونا وبا سے پیدا شدہ عالمی معاشی بحران جیسی بنیادی وجوہات کے سبب عالمی مارکیٹ میں سونے کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے سرمایہ کار اپنا پیسا اس چیز میں منتقل کر رہے ہیں جو ان کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا نے چین کو ہیوسٹن شہر میں موجود اپنا سفارت خانہ فوری طور پر بند کرنے کا حکم دیا تھا جس کےجواب میں چین نے بھی چینگڈو شہر میں امریکی سفارت خانہ بند کرکے عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لیا ہے۔
اس کشیدگی کے بعد سرمایہ کاروں کی اکثریت نے اپنا سرمایہ ڈالر سے سونے میں منتقل کرنا شروع کر دیا جب کہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو گئی۔
عالمی مارکیٹ میں اس وقت سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا یہ قیمت برقرار رہے گی ، بڑھے گی یا کم ہو گی۔
فوربز میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہفتہ اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کیونکہ امریکا کا فیڈرل ریزرو بینک بدھ کو شرح سود کا بھی اعلان کرے گا، امید کی جا رہی ہے کہ فیڈرل ریزرو بینک شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔
یہ اہم اس لیے بھی ہے کہ شرح سود میں تبدیلی ڈالر کی قدر پر اثر ڈالتی ہے اور اس کا اثر سونے کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سونے کی قیمتوں میں ابھی اضافہ متوقع ہے اور ہو سکتا ہے یہ 1981 ڈالرز فی اونس سے بھی بڑھ کر 2 ہزار ڈالرز فی اونس تک جائیں۔