لاہور: ادویہ سازی کی صنعت نے حکومت کی جانب سے دواؤں کی قیمت میں اضافہ نہ کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام اس صنعت کو مزید نقصان سے دوچار کرے گا۔
فارما انڈسٹری ڈرگ پرائسنگ پالیسی کے تحت ادویہ کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافے کے حوالے سے پُراُمید تھی کیوں کہ اس پالیسی کے تحت اسے حکومتی عمل دخل کے بغیر دواؤں کی قیمت سالانہ 10 فیصد تک بڑھانے کی اجازت ہے۔
مگر حکومت نے ڈرگ پرائسنگ پالیسی کو ڈرگ ایکٹ 1976ء سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں تبدیلی کر دی ہے جس کے بعد حکومت کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی دوا کو اس فہرست سے نکال دے جس کی قیمت میں پالیسی کے تحت اضافہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: کابینہ اجلاس: کورونا کی دوا کی قیمت متعین کرنے کی منظوری، درآمدی ڈیوٹی لاگو نہیں ہو گی
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے حال ہی میں ڈرگ پرائسنگ پالیسی میں اس تبدیلی کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت کسی بھی دوا کی قیمت میں اضافے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ سب اس لیے کیا گیا ہے کیوں کہ دوا سازی کی صنعت نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ کورونا وباء کے باعث ادویہ کی قیمتوں میں سالانہ اضافہ ستمبر 2020ء تک مؤخر کر دیا جائے گا۔
تاہم قیمتوں کا یہ جمود فارما انڈسٹری کو راس نہ آیا اور یہ سیکٹر رواں برس 5.38 فیصد تک سکٹر گیا۔
یہ بھی پڑھیے: برطانوی دوا ساز کمپنی کا ستمبر سے کورونا ویکسین فراہم کرنے کا اعلان
ادویہ سازی کی صنعت سے وابستہ ایک اہلکار کا پرافٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حکومت اپنی ہی پالیسی سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور دواؤں کی قیمت کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے جس سے اس صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کو ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ پر لگانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور پالیسی سازوں کو اس بات کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ دوا ساز صنعت کی پیداواری لاگت ایک ہی سال میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی 13.5 فیصد کم ہو چکی ہے جس سے خام مال مہنگا درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فارما انڈسٹری کے لیے حالات مشکل بنانے کے بجائے اسے سہارا دینا چاہیے کیونکہ یہی ملکی مفاد میں ہے۔